سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت سپر ٹیکس کیس نے ایک نیا رخ اختیار کرلیا، جب عدالت عظمیٰ کے معزز ججز نے وفاقی حکومت سے براہ راست سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔
سماعت کے دوران ایک بات واضح ہو گئی کہ اگر ٹیکس پورے ملک سے اکٹھا ہو رہا ہے تو اس پر صرف وفاق نہیں، بلکہ تمام صوبوں کا بھی مساوی حق ہے۔
پانچ رکنی آئینی بینچ، جس کی سربراہی جسٹس امین الدین خان کر رہے تھے، اور انہوں نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کے وکیل سینیٹر رضا ربانی کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔
کیس کا بنیادی نکتہ سپر ٹیکس سے حاصل شدہ 80 ارب روپے کی تقسیم تھا جو بظاہر دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں، بالخصوص خیبرپختونخوا اور سابقہ فاٹا کے لیے مختص ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے دو ٹوک انداز میں ریمارکس دیے کہ “یہ پیسے پورے ملک سے اکٹھے ہو رہے ہیں، تو کیا باقی صوبے صرف تماشائی بنیں گے؟ این ایف سی ایوارڈ کا مقصد ہی مساوی تقسیم ہے۔ اگر میں آپ کے نام پر پیسہ لوں اور واپس نہ کروں تو؟”
لازمی پڑھیں: پاکستان انڈیا کشیدگی: غیر ملکی ایئرلائنز نے پاکستانی فضائی حدود سے منہ موڑ لیا
جسٹس محمد علی مظہر نے بھی سوالات کرتے ہوئے کہا کہ “80 ارب میں سے 42.5 فیصد تو وفاق لے جائے گا، باقی رقم کہاں خرچ ہوگی؟” جس پر رضا ربانی نے وضاحت دی کہ “یہ رقم وفاقی حکومت کے ذریعے خرچ کی جائے گی اور صوبوں کو ان کا حصہ این ایف سی کے تحت مل رہا ہے۔” تاہم، عدالت اس وضاحت سے مطمئن نظر نہ آئی۔
دلچسپ موڑ اس وقت آیا جب جسٹس مندوخیل نے یاد دلایا کہ رضا ربانی خود اٹھارویں آئینی ترمیم کے معمار ہیں۔
انہوں نے سخت لہجے میں کہا کہ “ایسے تو آپ این ایف سی ایوارڈ کا ستیاناس کردیں گے،” یہ جملہ سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہونے لگا۔
دورانِ سماعت کمپنیز کے وکیل مخدوم علی خان بھی روسٹرم پر آئے اور عدالت سے استدعا کی کہ آڈیٹر جنرل اور سیکریٹری فنانس کو طلب کیا جائے تاکہ رقوم کے استعمال کی شفافیت واضح ہو سکے۔ جس پر عدالت نے کہا کہ “پہلے اٹارنی جنرل کا مؤقف سن لیتے ہیں پھر فیصلہ کریں گے کہ کن افراد کو طلب کرنا ہے۔”
کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ ایف بی آر کے وکیل رضا ربانی مزید وضاحتوں کے ساتھ عدالت کے کڑے سوالات کا سامنا کریں گے۔
یہ کیس صرف ایک مالیاتی تنازعہ نہیں بلکہ یہ اس بنیادی اصول پر سوال اٹھا رہا ہے کہ کیا واقعی ہمارا مالیاتی نظام وفاق اور صوبوں کے درمیان انصاف پر مبنی ہے یا پھر کچھ اور کھیل کھیلا جا رہا ہے۔