Follw Us on:

امریکی صدر مسئلہ کشمیر حل کرانے کے خواہاں، پاکستان اور انڈیا کیا چاہتے ہیں؟

مادھو لعل
مادھو لعل
Indian army

چھ اور سات مئی کی درمیانی شب انڈیا نے رات کی تاریکی میں پاکستان میں 6 مختلف مقامات پر حملے کیے، جس کے بعد خطے میں جنگ کی فضا پیدا ہوگئی۔ انڈیا نے پہلگام واقعے کا بہانہ بناتے ہوئے دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر حملے کے نام سے سویلین آبادی کو نشانہ بنایا، مگر پاک فوج کی مؤثر حکمت عملی سے حالات پر قابو پالیا گیا اور زیادہ جانی نقصان ہونے سے بچا لیا گیا۔

پاکستان نے 10 مئی کو صبح صادق کے وقت انڈیا پر جوابی کارروائی کی، جس کی تاب نہ لاتے ہوئے انڈیا نے امریکی صدر ٹرمپ کو گھسیٹا اور اگلے 48  گھنٹوں کے لیے جنگ بندی کروا لی، یہ فیصلہ کیا گیا کہ 12 مئی کو دونوں ممالک کسی نیوٹرل مقام پر مسائل  پر بات چیت کریں گے، جن میں مسئلہ کشمیر، سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور دہشتگردی کا خاتمہ ہیں۔

یہ صرف جنگ بندی نہیں، ایک نئی آزمائش کی شروعات ہے، امن کے خواب کی، جسے بارہا تاریخ نے خون سے داغدار کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا انڈیا اور پاکستان سےمل کر کشمیر کا حل نکالنے کی کوشش کرے گا، ڈونلڈ ٹرمپ

واشنگٹن کی ثالثی میں جنگ بندی کا اعلان ایک لمحے کے لیے پوری دنیا کو سکون دے گیا، لیکن ان سوالوں کو بھی جنم دے گیا کہ کیا یہ جنگ بندی عارضی ہے؟ کیا واقعی دونوں ممالک مذاکرات کی میز پر آئیں گے؟ اور کیا دہشتگردی و مسئلہ کشمیر کا کوئی پائیدار حل نکل پائے گا؟

Indian soldiers & kashmiri

جنگ بندی کے چند گھنٹوں بعد ہی انڈیانے پاکستان پر اس کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا، جسے پاکستان نے مسترد کر دیا۔

پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے انڈیا کے خلاف جوابی کارروائی سے متعلق مشترکہ اور تفصیلی پریس کانفرنس کے دوران کہا  کہ کنٹرول لائن پر جنگ بندی کے اپنے وعدے پر پاکستان کی افواج سختی سے عمل پیرا ہیں۔ ہم ایک پیشہ ور فوج ہیں اور اپنے وعدے پر پوری طرح عمل کرتے ہیں۔

جنگ بندی نے جہاں خطے میں امن قائم کیا ہے اور دو ایٹمی طاقتوں میں کشیدگی کو کم کیا ہے، وہیں اس سوال کو بھی اٹھایا ہے کہ آیا کہ پاکستان کو آپریشن مرصوص سے کوئی فائدہ پہنچا ہے یا پھر یہ محض وقت اور پیسے کا ضیاع تھا؟

‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینیئر صحافی اشرف سہیل نے کہا ہے کہ آپریشن بنیان مرصوص کے بعد پاکستان کو جو کامیابی حاصل ہوئی، وہ کئی محاذوں  پر محیط ہے۔ یہ صرف عسکری میدان میں فتح نہیں بلکہ اخلاقی، سفارتی اور نظریاتی محاذ پر بھی پاکستان نے انڈیا کے مقابلے میں ایک بڑی اور قابلِ ذکر کامیابی حاصل کی ہے، یہی وہ کامیابی ہے جس نے انڈیا کو نہ صرف جنگ شروع کرنے سے روکا بلکہ ایک ایسی کیفیت میں مبتلا کر دیا جہاں وہ سیز فائر کی خلاف ورزی کے باوجود مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور ہو رہا ہے ۔

Pak attack

لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان مذاکرات میں پاکستان کو کیا بات کرنی چاہیے؟ اور اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان ان مذاکرات میں کس نپے تلے، باوقار، مدلل اور حوصلے کے انداز میں شامل ہو؟

اشرف سہیل نے کہا ہے کہ جس جرات، استقامت اور سیاسی دانشمندی کا مظاہرہ حالیہ بحران میں پاکستان کی قیادت نے کیا، اُسی حکمت اور وقار کے ساتھ بات چیت کا رخ متعین کرنا ہوگا۔ یہ بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ انڈیا اپنے پرانے الزامات کو دہرانے سے باز رہے۔ انڈیا  میں تو ایسا ماحول ہے کہ اگر کوئی معمولی پرندہ بھی حادثاتی طور پر اُن کے علاقے میں داخل ہو جائے تو الزام پاکستان پر عائد کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ایسے حالات میں پاکستان کو بین الاقوامی قوتوں کی ضمانت کے ساتھ انڈیا کو باور کروانا ہوگا کہ وہ آئندہ ایسی حرکات سے باز رہے۔

آج دونوں ممالک کسی نیوٹرل مقام پر مذاکرات کے لیے اکٹھے ہونے والے ہیں، ایسے میں پاکستانی عوام اور تجزیہ کاروں کی جانب سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر کوئی معاہدہ نہ کیا جائے۔ کشمیری پاکستان ہیں اور پاکستان کشمیر ہے۔

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ان مذاکرات کا مرکز ہونا چاہیے۔ یہ مسئلہ تاریخی ناانصافی پر مبنی ہے اور اس کا منصفانہ حل ضروری ہے۔ اسی طرح پاکستان کے اندر جاری دہشت گردی، خصوصاً بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں سرحد پار سے ہونے والی مداخلت کو روکنے کے لیے بھی انڈیاپر دباؤ ڈالنا ضروری ہے۔ افغانستان کے راستے دہشت گردی کی پشت پناہی پر بھی بات ہونی چاہیے۔

Dgispr

دوسری جانب آئی ٹی اینڈ سوشل سائنسز ایکسپرٹ تمجید اعجازی نے کہا ہے کہ اگر موجودہ صورت حال کو دیکھا جائے تو پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر متعدد محاذوں پر کمزور تصور کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر مذاکرات کی جو حالیہ لہر چل رہی ہے، وہ بھی ایک محدود زاویہ رکھتی ہے۔ امریکہ اور دیگر یورپی ممالک، بظاہر امن کی حمایت کرتے ہوئے دراصل انڈیاکے مؤقف کی تائید کر رہے ہیں اور اُسے بچانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے 5 فروری کو کشمیر یکجہتی دن کے موقع پر آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے انڈیا کو مسئلہ کشمیر پر “معنی خیز اور فیصلہ کن” مذاکرات کی پیشکش کی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ وہ 5 اگست 2019 کی سوچ سے باہر نکلے اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بات چیت کا آغاز کرے، مگر انڈیا نے روایتی ہٹ دھرمی دکھاتے ہوئے مسئلہ کشمیر کا حل تو نہ ڈھونڈا مگر پہلگام حادثے کا الزام چند منٹوں میں پاکستان پر عائد کرنا نہیں بھولا۔

اشرف سہیل نے کہا کہ یہ مذاکرات صرف رسمی نشستیں نہیں ہونی چاہییں بلکہ ان کی بنیاد واضح، دو ٹوک مؤقف اور قومی مفادات پر ہونی چاہیے۔ پاکستان کو پوری مضبوطی اور سچائی کے ساتھ اپنا مقدمہ پیش کرنا چاہیے۔

تمجید اعجازی نے واضح کیا کہ اس سے قبل امریکی محکمہ خارجہ نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ پاکستان اور انڈیا اپنے معاملات خود حل کریں اور امریکہ اس میں مداخلت نہیں کرے گا۔ لیکن جب پاکستان نے انڈیا کے خلاف جوابی کارروائی کی، تو فوراً ہی امریکہ اور یورپی طاقتیں میدان میں کود پڑیں۔ ان ممالک نے نہ صرف سیزفائر کو ترجیح دی بلکہ مذاکرات کا ڈھول بھی پیٹنا شروع کر دیا، جس کا اصل مقصد انڈیا کو مزید تنہائی سے بچانا نظر آتا ہے۔

Pak meeting us

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے بھی انڈیا اور پاکستان پر زور دیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق مذاکرات کے ذریعے حل کریں، مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ ان مذاکرات کا حل کیا نکلتا ہے؟

سینیئر صحافی کے مطابق اگر امریکہ اس عمل میں ثالثی کرتا ہے تو یہ بھی ایک مثبت پیش رفت ہو سکتی ہے، کیونکہ اب امریکہ اور دنیا کو بھی یہ سمجھ آ چکی ہے کہ پاکستان کو دبایا نہیں جا سکتا اور نہ ہی اُس کے قومی وقار پر کوئی سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان کی خودمختاری اور سلامتی ناقابلِ تضحیک ہیں، انڈیا کو سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان ایک خوددار ریاست ہے جسے کمزور کرنے کی ہر کوشش ناکام بنے گی۔

سہیل اشرف نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے اور مسئلہ کشمیر کو منصفانہ بنیادوں پر حل کیا جائے۔ دونوں ممالک کے درمیان جو بنیادی تنازعات ہیں، جیسا کہ سندھ طاس معاہدہ اور پانی کی منصفانہ تقسیم، اُن پر بھی سنجیدگی اور ٹھوس مؤقف کے ساتھ بات چیت کی جائے۔

اگرچہ دونوں ممالک نے جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے، لیکن سرحدی علاقوں میں کشیدگی برقرار ہے۔ کشمیر کے کئی علاقوں میں شہریوں کی واپسی شروع ہو گئی ہے، تاہم خوف اور عدم تحفظ کا ماحول ابھی بھی موجود ہے۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا ہے، جس سے خطے میں پائیدار امن کے امکانات متاثر ہو سکتے ہیں۔

Pak attacked

آئی ٹی اینڈ سوشل سائنسز ایکسپرٹ نے مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ صورتحال پاکستان کے لیے حوصلہ افزا نہیں کہلا سکتی،  اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان بین الاقوامی محاذ پر اپنی پوزیشن کو مستحکم کرے۔ اس میں سفارتی مؤقف کے ساتھ ساتھ اپنی اسٹریٹجک طاقت، خاص طور پر جوہری صلاحیت اور دیگر قومی طاقت کے ذرائع جیسے ایکسپورٹس، معیشت، ٹیکنالوجی اور علاقائی روابط کو بھی بھرپور انداز میں دنیا کے سامنے رکھا جائے۔

دونوں ممالک دہشتگردی کے خاتمے اور مسئلہ کشمیر کے مستقل حل کے لیے سنجیدہ اور بامعنی مذاکرات نہیں کرتے، تب تک خطے میں پائیدار امن کا قیام ممکن نہیں۔ ماضی میں بھی کئی مرتبہ مذاکرات کا آغاز ہوا، لیکن ہر بار کسی نہ کسی واقعے کی وجہ سے یہ عمل تعطل کا شکار ہو گیا۔

اشرف سہیل کے مطابق پاکستان کو ہر سطح پر اپنی بات پورے اعتماد، بصیرت اور قومی مفاد کے ساتھ رکھنی چاہیے تاکہ یہ مذاکرات صرف کاغذی کاروائی نہ ہوں بلکہ خطے میں پائیدار امن کی بنیاد بنیں۔

دوسری جانب تمجید اعجازی نے خبردار کیا ہے کہ یہ سوچنا وقت کی ضرورت ہے کہ اگر مستقبل میں کوئی نیا واقعہ رونما ہوتا ہے تو پاکستان کو یکطرفہ کارروائی کے بجائے پہلے سے ایسی سفارتی اور بین الاقوامی حیثیت حاصل ہو، جہاں وہ اپنے مؤقف کو عالمی سطح پر مؤثر انداز میں پیش کر سکے اور دنیا کو قائل بھی کر سکے۔

موجودہ حالات میں اگر دونوں ممالک دہشتگردی کے خاتمے اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھائیں، تو خطے میں امن و استحکام کا قیام ممکن ہے۔  اس کے لیے دونوں طرف سے سیاسی عزم، عوامی حمایت اور بین الاقوامی برادری کی معاونت ضروری ہے۔ اگرچہ جنگ بندی ایک مثبت قدم ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ دہشتگردی کے خاتمے اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے سنجیدہ اور بامعنی مذاکرات کی ضرورت ہے۔ صرف اسی صورت میں خطے میں پائیدار امن اور ترقی ممکن ہو سکتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے آیا کہ ان مذاکرات سے کوئی حل نکلتا ہے یا پھر یہ ماضی کی طرح بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوجاتے ہیں۔

مادھو لعل

مادھو لعل

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس