Follw Us on:

عالمی طاقتوں کا کھیل، شاہینوں نے بساط پلٹ دی

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک

چند ہفتے قبل، ہندوستانی سنیما نے فلم “اسٹیٹ آف ایمرجنسی” پیش کی، جو بھارت کی انجہانی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی زندگی اور ان کے سیاسی کیریئر میں ان کی ذاتی اور خاندانی زندگی کا ایک پہلو بیان کرتی ہے۔ فلم میں ڈرامے کی شدت اور اندرا گاندھی اور ان کے خاندان کی زندگی میں ہونے والے المناک رجحان کو دکھایا گیا ہے۔ لیکن اگر پاکستانی بھٹو خاندان جیسے خاندان کی سوانح عمری کو سینما اسکرین پر پیش کیا جائے تو اندرا گاندھی کی زندگی پر  بنائی جانے والی  فلم کتنی سادہ اور جوش سے خالی نظر آئے گی اس کا کو وہی لوگ جانتے ہیں جو بھٹو خاندان کی زندگیوں سے واقف ہیں۔ اشرافیہ کے پس منظر سے آنے والے اس خاندان کی تاریخ عروج و زوال، موت اور غداری، خون اور آنسوؤں کے غیر معمولی مراحل سے مزین ہے، جن کے مقابلے میں اقتدار کی جدوجہد اور ان کے نتائج کی ہندوستانی کہانی پھیکی پڑ جائے گی۔ یہ پاک بھارت کے صرف دو بااثر خاندانوں کا حوالہ ہی نہیں بلکہ ان خاندانوں سے دونوں ممالک کے سیاسی اقتصادی اور معاشی ترقی کا موازنہ کرنا ممکن ہے۔

1947 میں وجود میں آنے والے پاکستان کو ابتدائی طورپر تمام ہی شعباجات میں انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد حالات نے ایک ہولناک رخ اختیار کر لیا، جسے بھارت کی تیار کردہ دہشتگرد تنظیم مکتی باہنی نے سپورٹ کیا اور یوں سنہ  1970 کی دہائی کے آخر پاکستانی سیاست اس وقت کے وزیرا عظم  ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے ساتھ اپنے خونی عروج پر پہنچ گئی۔ پاکستان جنرل ضیاء الحق کے ساتھ فوجی حکمرانی کے دور میں داخل ہوا، جو افغان جنگ سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہا، جس نے سوویت یونین کو نشانہ بنایا، دشمنوں کی بھرپور کوشش تھی کہ 1980 کی دہائی کے اختتام اور مشرقی بلاک کے خاتمے سے پہلے پاکستان کو یا تو غیر جانبدار یا ختم کردیا جائے لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا (وَ مَكَرُوْا وَ مَكَرَ اللّٰهُؕ-وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ)

ترجمہ اور کافروں نے مکر کیا اور اللہ نے ان کے ہلاک کی خفیہ تدبیر فرمائی اور اللہ سب سے بہتر چھپی تدبیر والا ہے۔

یہ بات کسی سے چھپی نہیں ہے کہ پاکستان کا قیام انتہائی مشکل حالات میں ہوا اور اس نے اپنی پوری تاریخ میں پے در پے سانحات کا سامنا کیا ہے ایک ایسے نوزائدہ ملک کی مشکلات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جس کی سرحد کا تقریباً 3,310 کلومیٹرایک ایسے ملک کے ساتھ ہو جو اس کے وجود کا ہی دشمن بنا ہوا ہو، بھارت جو پاکستانی قوم پرستی کے جینیاتی میک اپ میں گہرائی تک سرایت کر چکا ہے وہ پاکستان کے وجود کا دشمن ہے اور بھارتی سیاست دان پاکستان کو اپنے ہر طرح کے مسائل کا ذمہ دار قرار دینے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، اس نظریے کو حقیقت بنانے کیلئے کبھی ترجیحی پوزیشن پر آگے بڑھتے ہیں اور کبھی پیچھے ہٹ جاتے ہیں، کبھی الزامات لگاتے ہیں توکبھی خفیہ تدابیر اور سازشیں کرتے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان نے کبھی بھی بھارت کے ساتھ کشیدگی میں پہل نہیں کی لیکن پاکستان جانتا ہے کہ بھارت مکاری اور چالبازی میں کسی حد تک جاسکتا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ وہ گیا بھی ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ پاکتسان ہندوستان کے حوالے سے چوکنا رہتا ہے، چاہے ان کے ارد گرد دنیا کی عسکری اور سیاسی نقل و حرکت کچھ بھی ہولیکن بھارت کے حوالے سے پاکستان کیانگلیاں  ہمیشہ ہی نیوکلیئر بٹن کے قریب رہتی ہیں اور ایسا کرنا پاکستان کے کی مجبوری بھی ہے لیکن پاکستان نے بھارت کی طرح اس حقیقت کو کبھی چھپایا نہیں، 1999 میں کارگل جنگ کے بعد پاکستان نے میں پہلی اسٹرائیک پالیسی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کیا۔

بھارت پاکستان کا دشمن ہے اور یہ بات کوئی راز نہیں ہے جہاں بھارت کو امریکہ، برطانیہ فرانس اور اسرائیل سمیت ہر اس ملک کی حمایت حاصل ہے جو مسلمانوں کے خلاف ظاہر اور مخفی دشمنی رکھتا ہے وہیں پاکستان کو چین، ترکی سعودی عرب سمیت تقریبا تمام ہی مسلمان ممالک کی حقیقی یا علامتی حمایت حاصل ہے جو کہیں نا کہیں اس بات کو سمجتھے ہیں کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اور جس کی انتہائی پروفیشنل آرمی ہے اور ان ممالک کو کہیں نا کہیں پاکستان کی ضرورت پڑھتی ہی رہتی ہے۔

دونوں ممالک ایک دوسرے کے عزائم سے آگاہ ہیں پاکستان زیادہ تر چینی ساختہ اسلحہ استعمال کرتا ہے وہیں بھارت اسلحے کے شعبے میں امریکہ، روس، فرانس، برطانیہ اور غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل پر انحصار کرتا ہے، بھارت مقبوضہ  کشمیر کے علاقے میں، اسرائیلی ساختہ ہیرون ڈرون کا استعمال کرتا ہے جو ناہموار پہاڑی علاقوں میں انٹیلی جنس اکٹھا کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ بھارت نے 2008 سے اسرائیلی ٹیور رائفلز پر بھی انحصار کیا اور 2019 کے پلوامہ حملے کے بعد پاکستان کے اندر فضائی حملوں میں SPICE-2000 پریزیشن گائیڈڈ سسٹم کا استعمال کیا۔

بھارت  دنیا کا سب سے بڑا ہتھیار درآمد کرنے والا ملک ہے، جو کہ 2008 اور 2023 کے درمیان کل عالمی ہتھیاروں کی درآمدات کا تقریباً 10% خرچ کرچکا ہے۔ نئی دہلی اپنی فوج کو جدید بنانے اور اپنی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے اگلی دہائی میں کم از کم $200 بلین خرچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

اس تناظر میں، اسرائیل بھارت کے سب سے بڑے ہتھیار فراہم کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے، گزشتہ دہائی کے دوران تقریباً 2.9 بلین ڈالر مالیت کے اسرائیلی ہتھیاروں کی نئی دہلی کو درآمدات، بشمول ریڈار، جاسوسی طیارے، جنگی ڈرون، اور میزائل سسٹم شامل ہے۔ اس تعاون کی سب سے نمایاں مثال بارک 8 ایئر ڈیفنس سسٹم ہے۔ ہندوستان فی الحال ان میزائلوں کی نئی جنریشن کو ہندوستانی دفاعی تحقیق اور ترقی کی تنظیم (DRDO) اور اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز کے درمیان تین مشترکہ منصوبوں میں متعارف کرانے کے لیے کام کر رہا ہے۔

یہ بات ساری دنیا ہی جانتی ہے کہ جہاں بھارت پاکستان کا کھلا دشمن ہے وہیں غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل پاکستان کو اپنی راہ کی سب سے بڑی دیوار سمجھتا ہے، اسرائیل نے پاکستان کے خلاف بھارت کی ہر محاذ پر امداد کی ہے

22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ایک دہشتگرد حملہ ہوا جس کا الزام بھارت نے بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر عائد کیا اس کے بعد سے بھارت نے اسرائیلی شہ پر پاکستان کے مختلف علاقوں میں حملے کیئے جس کا پاکستان نے دفاع کی تاہم بھارتی جارحیت بڑھتی گئی ارو یوں 10 مئی کی صبح پاکتسان نے مجبور ہو کر بھارت کے خلاف پہلی باضابطہ جنگی کارروائی کی، پاکستانی شاہینوں نے چند گھنٹوں میں نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ دنیا کے عسکری، سفارتی اور تکنیکی توازن کو ہلا کر رکھ دیا۔ پہلگام کے محاذ پر ہونے والی محدود جنگ محض ایک جھڑپ نہیں تھی — یہ ایک عسکری انقلاب تھا، جس نے آنے والی دہائیوں کی سمت اور پوری دنیا میں پاکستان کی صلاحیتوں سے طاقت کے توازن کی نئی سمت طے کر دی۔

یہ جنگ دو مراحل پر مشتمل تھی، اور صرف دو گھنٹے جاری رہی۔ لیکن ان دو گھنٹوں میں امریکہ بھارت اور اسرائیل کا وہ خواب خاک ہوا جسے وہ عشروں سے دیکھتے آئے تھے کہ بھارت کو جنوبی ایشیا  اور اسرائیل کو مشرقی وسطیٰ کی واحد واحد طاقت بنانے کا خواب۔ بھارت جو دفاعی لحاظ سے خود کو خطے کی برتر قوت سمجھتا تھا، اس واقعے کے بعد ایسا پسپا ہوا کہ جس کو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گ۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جو روایتی عسکری عدم توازن موجود تھا، اب وہ ختم ہو چکا ہے بلکہ کئی حوالوں سے پاکستان کو سبقت حاصل ہو گئی ہے۔

مودی حکومت کی جارحیت نے نہ صرف جنگ کو بھڑکایا بلکہ کشمیر جیسے مردہ قرار دیے گئے مسئلے کو عالمی اسٹیج پر دوبارہ زندہ کر دیا۔ پاکستان اب اسے اقوام متحدہ سمیت ہر عالمی فورم پر اٹھا سکتا ہے، اور اب دنیا سننے پر مجبور ہے۔

بھارت کو جہاں غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی ہر طرح کی سپورٹ حاصل تھی وہیں پاکستان کو چین کی سپورٹ حاصل تھی

نئی دہلی کی جانب سے پاکستان میں نو مقامات پر میزائل حملوں کے اعلان کے بعد اسرائیل نے ” ہندوستان کے لیے اپنی حمایت” کی تصدیق کی تھی۔ ہندوستان میں اسرائیل کے سفیر ریوین آزر نے اپنے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر اکاؤنٹ پر لکھا: “اسرائیل اپنے دفاع کے ہندوستان کے جائز حق کی حمایت کرتا ہے۔ دہشت گردوں کو جان لینا چاہیے کہ معصوم لوگوں کے خلاف ان کے گھناؤنے جرائم سے چھپنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔”

یہ بیان ہندوستان کی طرف سے “آپریشن سندھور” شروع کرنے کے چند گھنٹے بعد آیا ہے تھا۔ دو طرفہ تعلقات کے تناظر میں غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے جنگی مجرم وزیراعظم نیتن یاہو نے اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کو تعزیتی خط بھیجا ہے۔ نیتن یاہو نے اپنے بیان میں کہا “میرے پیارے دوست نریندر مودی، مجھے پہلگام میں وحشیانہ دہشت گردانہ حملے پر گہرا افسوس ہے جس میں درجنوں بے گناہ لوگوں کی جانیں گئیں۔ ہمارے خیالات اور دعائیں متاثرین اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔” صیہونی وزیر اعظم نے مزید کہا، “اسرائیل دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ میں ہندوستان کے ساتھ کھڑا ہے”، انھوں نے انتہا پسندی اور تشدد کا مقابلہ کرنے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات کی گہرائی پر زور دیا۔

اسرائیلی سیاسی قیادت کے بھارت کے ساتھ تعلقات اور نام لئے بغیرپاکستان کے خلاف بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ ان حملوں میں بھارت تنہا نہیں تھا لیکن اللہ کے فضل سے پاکستان اب وہ ملک ہے جس کی فوج دنیا کی بہترین فوج ہے جس نے اپنے دے چار گنا بڑے ملک کو گھٹنوں پر بیٹھنے پر مجبور کردیا اور اس بات کا اظہار خود امریکہ نے کیا

ٹرمپ انتظامیہ کے عہدیداروں جن میں نائب صدر جے ڈی وینس، سکریٹری آف اسٹیٹ، عبوری قومی سلامتی کے مشیر مارکو روبیو اور وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف سوزی وائلز سمیت سینئر امریکی عہدیداروں کے ایک  گروپ نے صدر ٹرمپ کو آگاہ کیا کہ امریکہ کو پریشان کن انٹیلی جنس معلومات موصول ہوئیں اور پھر امریکی وقت کے مطابق جمعہ کی سہ پہر بھارتی وزیراعظم مودی سے ہنگامی طورپر بات کی۔ وانس نے مودی کو سمجھایا کہ وائٹ ہاؤس کا خیال ہے کہ اگر تنازع ہفتے کے آخر تک جاری رہا تو بھارت کو انتہائی شدید قسم کے نقصانات کے امکانات ہیں جو ناقابل تلافی ہوں گے۔

 وانس نے مودی پر زور دیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ براہ راست رابطہ کریں اور کشیدگی کو کم کرنے کے آپشنز پر غور کریں۔ یہ وہ وقت تھا جب مودی کو احساس ہوا کہ جس امریکہ اور اسرائیل کے بل بوتے پر میں نے یہ ڈرامہ شروع کیا تھا اب وہی اس کو ختم کرنے کا کہہ رہے ہیں تو بات سنجیدہ ہی ہوگی۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کسی معمولی سرحدی تنازعے یا روایتی دشمنی کا تسلسل نہیں، بلکہ یہ ایک وسیع گیم چینجرہے، جو آج کی دنیا میں طاقت کے توازن کی ازسرنو تشکیل کا نتیجہ ہے۔ ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں یونی پولر نظام جو سرد جنگ کے بعد امریکہ کے گرد مرکوز تھا اب اپنی گرفت کھو چکا ہے، اور دنیا ایک یونی پولر سے ملٹی پولر نظام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس تبدیلی کی جھلک ہمیں صرف مشرق وسطیٰ یا یورپ میں نہیں، بلکہ اب جنوب ایشیا جیسے خطوں میں بھی نظر آتی ہے، جہاں علاقائی طاقتیں اب نئی عالمی سیاست کا مرکز بنتی جارہی ہیں۔

چین کے ساتھ امریکہ خاموش اقتصادی جنگ ہو، یا یوکرین کے تنازعے پر روس کے ساتھ محاذ آرائی  یہ سب محض دوطرفہ کشمکش نہیں بلکہ دنیا کے اس بدلتے توازن کا نتیجہ ہیں جہاں ہر بڑی طاقت خطے میں اپنا اثر رسوخ قائم کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اگرچہ امریکی صدر ٹرمپ کے دور میں امریکہ نے بعض عالمی تنازعات سے وقتی کنارہ کشی اختیار کی، مگر اب عالمی افق پر ایک مرتبہ پھر سپر پاورز اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے اپنی اپنی چالیں چلنا شروع کردی ہیں۔

اس سیاسی منظر نامے پر گہرائی سے توجہ دیں تو معلوم ہوگا کہ عالمی طاقتیں امریکہ، چین، روس نہ صرف بالواسطہ ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں، بلکہ ان کی توجہ ان ممالک پر مرکوز ہے جو اپنے اپنے خطوں میں اثرورسوخ رکھتے ہیں، جیسے پاکستان، بھارت، ترکی، ایران اور سعودی عرب۔ یہ ممالک اب محض علاقائی کھلاڑی نہیں بلکہ ان کے ذریعے عالمی قوتیں خطے میں اپنے مفادات کا تحفظ چاہتی ہیں۔ چنانچہ ان کے ساتھ تزویراتی اتحاد، دفاعی معاہدے اور اقتصادی شراکت داریاں بنائی جا رہی ہیں تاکہ عالمی مقابلے میں بالا دستی حاصل کی جا سکے۔

مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام بھارت کے خودساختہ حملے کے تانے بانے بھی عالمی طاقتوں سے ملتے ہیں اور اس واقع کو وجہ بنا کر امریکہ اور اسرائیل نے پاکستان کو بھارت کے زیر اثر لانے کے اقدامات کئے اور اس کو دلیل بنا کر بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیا۔

10 مئی کو بھارتی فوج امریکی اور اسرائیلی اسلحہ سے لیس تھی تو یہاں آسمان میں صرف  صرف پاکستانی پائلٹ نہیں تھے یہاں پاکستان کا دوست اور امریکہ کا دشمن چین اپنے جنگی نظام کی مکمل فعالیت کے ساتھ ہمارے جانبازوں کے ساتھ موجود تھا۔ چینی ساختہ J-10C لڑاکا طیارے، PL-15 میزائل جو 5 Mach رفتار اور 300 کلومیٹر سے زائد رینج کے حامل ہیں، ایر آئی ریڈار، اور AI پر مبنی حملے تھے جس کے باعث  بھارت کی 250 ملین ڈالر مالیت کے رافیل طیارے صرف 9 سیکنڈ میں فضا میں تباہ ہو گئے۔

 Spectra وارفیئر سسٹم ناکام، فرانسیسی ٹیکنالوجی خاموش، اور بھارتی پائلٹ بےبس۔ یہ محض ایک ہوائی جھڑپ نہیں تھی یہ جدید سینسر فیوژن، سیٹلائٹ معاونت، اور C4ISR کی برتری کا وہ بہترین نمونہ تھا جس کا مظاہرہ پاکستان کے شاہینوں نے بے مثال طریقے سے کیا۔

اسرائیلی ڈرونز کی ناکامی، فرانسیسی رافیل کی تباہی، اور امریکی حمایت یافتہ بھارتی دفاعی سوچ کی شکست نے مغربی اسلحہ ساز اداروں کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ امریکہ نے بھارت کو چین کے مقابلے میں کھڑا کرنے کا جو خواب دیکھا تھا، وہ اب چکنا چور چکا ہے۔ دنیا اب واضح طور پر بائی پولر ہو چکی ہے اور پاکستان چین اتحاد اس نئی تقسیم کا محور بن چکا ہے۔

یہ واقعہ پاکستان کی دفاعی خودمختاری، تکنیکی ہم آہنگی، اور چینی دوستی کی گہرائی کا عکاس ہے کہ اب پاکستان محض ایک علاقائی طاقت نہیں رہا یہ ایک اسٹریٹیجک اینکر بن چکا ہے جو ایشیا میں طاقت کے توازن کو متاثر کر رہا ہے۔ دنیا کے بہترین لڑاکا طیارے قرار دیئے جانے والے 250 ملین ڈالر کے فرانسیسی رافیل کو لاک کر کے صرف 9 سیکنڈ بعد مار گرایا گیا اور بھارت کو اپنی فضائی قوت 300 کلومیٹر پیچھے ہٹانی پڑی۔  یہ ڈاک فائٹ نہیں بلکہ ایک ایسی گھات تھی جس کو پاکستانی شاہینوں نے کمال مہارت سے بھارت کے گرد لگائی تھی، ‏رافیل، جسے بھارت نے برتری کی علامت کے طور پر خریدا، پاکستان کے پائلٹوں نے چین کے بنے میزائل سے مارا گیا۔ یہ صرف تکنیکی ناکامی نہیں بلکہ امریکہ سمیت ان تمام ممالک کے لئے جغرافیائی پیغام بھی تھا جو اب تک پاکستانی کی دفاعی صلاحیتوں سے بے خبر تھے اب بھارت سمیت ان تمام خاموش دشمنوں کو باخوبی اندازہ ہوگیا کہ پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی ایک فحش غلطی اور خود کشی ہوگی ۔

یہ حقیقت ہے کہ دنیا ہمیشہ فاتح کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے اور یہ بات صرف ایک مسلمان سمجھ سکتا ہے کہ فتح توپ، ٹینک، طیاروں، عزم، تیاری، اتحاد، اور جدید ٹیکنالوجی سے نہیں بلکہ ایک اللہ پر بھروسہ سے جیتی جاتی ہے۔

“کَمۡ مِّنۡ فِئَةٍ قَلِیۡلَةٍ غَلَبَتۡ فِئَةً کَثِیۡرَةًۢ بِاِذۡنِ اللّٰہِؕ وَ اللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ” (سورۃ البقرہ، آیت 249) “کتنی ہی چھوٹی جماعتیں ہیں جو اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آ گئیں، اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔”

10 مئی کو محض چند گھنٹوں میں پاکستان نے یہی سچ دنیا کے سامنے لا کر رکھ دیا۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس