غزہ میں جاری جنگ کے خاتمے اور انسانی امداد کی فراہمی کے لیے امریکا اور حماس کے درمیان مذاکرات تیز ہو گئے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں غزہ کے فلسطینیوں تک خوراک پہنچانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ امداد پہنچانے کے لیے ایک امریکی حمایت یافتہ طریقہ کار جلد نافذ ہو گا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ وہ جاری مذاکرات پر تبصرہ نہیں کر سکتے لیکن قطر اور مصر کے حالیہ بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ معاہدے کی تلاش میں مصروف ہیں۔
تاہم، ترجمان نے حماس کو جنگ کی ذمہ داری اور امریکی شہری ایڈن ایلکزانڈر سمیت چار امریکیوں کے ہلاک ہونے کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا ہے کہ حماس جلد ایڈن ایلکزانڈر کو امریکی صدر ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ کے دورے سے قبل رہائی کے طور پر پیش کر سکتا ہے۔
ایلکزانڈر، جو ایک امریکی اسرائیلی فوجی ہیں، وہ اکتوبر 2023 میں حماس کے حملے کے دوران اغوا ہوئے تھے۔
اسرائیل نے 2 مارچ سے غزہ کی پٹی میں تمام سپلائی روک دی ہیں، اور 18 مارچ کو جنگ بندی معاہدہ ختم کر کے اپنی فوجی کارروائیاں دوبارہ شروع کر دیں۔
حماس نے کہا ہے کہ وہ تمام قیدیوں کی رہائی اور مستقل جنگ بندی کے لیے تیار ہے بشرطیکہ اسرائیل غزہ سے مکمل انخلا کرے۔
دریں اثنا، اسرائیل نے خبردار کیا ہے کہ جنگ صرف اس صورت میں ختم ہو گی جب حماس کا مکمل خاتمہ ہو گا۔
دوسری جانب اقوامِ متحدہ نے غزہ میں قحط کے خطرے کے پیشِ نظر فوری امداد کی ضرورت پر زور دیا ہے۔