12 مئی 2007 کو کراچی شہر میں پیش آنے والا ہولناک سانحہ آج بھی پاکستان کے عدالتی، سیاسی اور سماجی نظام پر کئی سوالیہ نشان ہے۔ اس دن کی ہولناکی، جب پورا شہر فائرنگ، لاشوں اور دھوئیں میں لپٹا ہوا تھا، آج بھی متاثرہ خاندانوں کے ذہنوں میں تازہ ہے۔ لیکن جو چیز تبدیل نہیں ہوئی، وہ ہے انصاف کی راہ میں رکاوٹ اور ریاستی خاموشی۔
12 مئی 2007 کو اُس وقت کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی کراچی آمد متوقع تھی۔ مختلف سیاسی جماعتیں اور وکلاء برادری اُن کے استقبال کے لیے نکلیں، تو وہیں اُس وقت کی سندھ حکومت اور متحدہ قومی موومنٹ (MQM) نے مخالفت میں جلسے کا اعلان کیا۔
یہ بھی پڑھیں:،’مسئلہ کشمیر کا مستقل حل‘، پاکستان امریکی صدر کی کوششوں کو خوش آئند قرار دیتا ہے، دفتر خارجہ
دن کے آغاز کے ساتھ ہی شہر کے اہم مقامات پر پرتشدد جھڑپیں شروع ہوئیں، جن میں مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان، وکلاء، صحافی اور عام شہری نشانہ بنے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 50 سے زائد افراد اس دن جاں بحق ہوئے، جبکہ متعدد گاڑیاں، دفاتر اور املاک نذر آتش کی گئیں۔

سانحے کے بعد 7 مقدمات درج کیے گئے، جن میں سے اب تک صرف ایک مقدمے کا فیصلہ ہوا ہے۔ اس کیس میں بھی تمام ملزمان کو ناکافی شواہد کی بنیاد پر بری کر دیا گیا۔ چھ مقدمات تاحال انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، جن میں کوئی واضح پیشرفت سامنے نہیں آ سکی۔
معروف قانونی و سیاسی تجزیہ کار اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ
“سانحہ 12 مئی محض ایک پرتشدد واقعہ نہیں، بلکہ یہ ریاستی نااہلی، سیاسی مفاہمتوں اور عدالتی کمزوریوں کا مجموعہ ہے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ریاست نے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ سے ہاتھ کھینچ لیا، اور آج 18 سال بعد بھی ہم اس غفلت کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ اگر 12 مئی پر بروقت کارروائی ہوتی تو شاید بعد کے کئی سانحات روکے جا سکتے۔
سانحے کے وقت کی حکومتی جماعت پر الزام لگتا رہا ہے کہ اس نے چیف جسٹس کے خلاف مزاحمت کے لیے شہر میں بدامنی کو نظر انداز کیا۔ اُس وقت کے وزیر اعلیٰ، گورنر اور دیگر اہم حکومتی شخصیات پر براہ راست سوالات اٹھے، مگر کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو سکی۔

سیاسی مبصرین کے مطابق اُس وقت کی ریاست نے اقتدار بچانے کے لیے قانون کو معطل رکھا۔
2025 میں کراچی کے شہریوں کو اب بھی اس دن کی یاد آتی ہے۔ شہری حقوق کی تنظیمیں اور وکلاء برادری ہرسال 12 مئی کو یومِ سیاہ کے طور پر مناتی ہے۔ لیکن حکومتی سطح پر خاموشی ہے۔ نہ کوئی کمیشن رپورٹ منظر عام پر آئی، نہ ہی مقدمات میں نمایاں پیشرفت ہوئی۔
سانحہ 12 مئی محض ایک عدالتی کیس نہیں، یہ ریاستی غفلت، انصاف کی سست روی اور شہریوں کے بنیادی حقوق کی پامالی کی علامت بن چکا ہے۔ 18 سال بعد بھی جب قاتل آزاد، متاثرین بے بس اور ریاست خاموش ہو، تو سوال یہی اٹھتا ہے:
کیا پاکستان میں انصاف واقعی سب کے لیے ہے؟