غزہ کی پوری آبادی اب قحط کے خطرناک ترین مرحلے میں داخل ہو چکی ہے جب کہ پانچ لاکھ فلسطینی زندگی اور موت کے دہانے کھڑے ہیں۔
یہ انکشاف عالمی بھوک پر نظر رکھنے والے ادارے انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کلاسیفکیشن (IPC) نے اپنی رپورٹ میں کیا ہے۔
یکم اپریل سے 10 مئی کے درمیان کیے گئے تجزیے اور ستمبر کے آخر تک کی پیشگوئی پر مبنی اس رپورٹ کے مطابق، غزہ کی 93 فیصد آبادی شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔
ان میں 2 لاکھ 44 ہزار افراد ایسے ہیں جو “انتہائی خطرناک” یعنی کیٹاٹرافک درجے کی بھوک جھیل رہے ہیں۔
یہ صورتحال گزشتہ اکتوبر میں جاری رپورٹ سے کہیں زیادہ ہولناک ہے، جس میں 1 لاکھ 33 ہزار افراد کو اس کیٹیگری میں شمار کیا گیا تھا۔
ادارے نے انتباہ جاری کیا ہے کہ ستمبر کے آخر تک یہ تعداد بڑھ کر 4 لاکھ 70 ہزار تک پہنچ سکتی ہے جب کہ مزید 10 لاکھ سے زائد افراد ‘ایمرجنسی’ سطح پر پہنچ سکتے ہیں۔

جب مارچ کے آغاز میں اسرائیل نے عارضی جنگ بندی کے بعد ایک بار پھر غزہ پر فوجی یلغار شروع کی تو یہ بحران مزید بڑھ گیا۔ اس دوران تمام بارڈر سیل کر دیے گئے اور انسانی امداد کی ترسیل رک گئی۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے اتنی امداد کی اجازت دی ہے جو آبادی کی ضروریات کے لیے کافی ہے اور وہ حماس کو امداد کے کنٹرول سے روکنا چاہتا ہے۔
تاہم IPC کی رپورٹ کے مطابق 5 مئی کو اسرائیلی حکام کی جانب سے اعلان کردہ امدادی منصوبہ ناکافی ہے اور اس کے تحت قائم کیے گئے ترسیلی نظام لاکھوں افراد تک رسائی میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔
یہ رپورٹ اقوام متحدہ کے اداروں اور مختلف عالمی این جی اوز کے تعاون سے تیار کی گئی ہے۔
عالمی برادری تاحال اسرائیلی مظالم، امریکی حمایت یافتہ اقدامات اور لاکھوں شہید فلسطینیوں کے بحران پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔