جب دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے ہوں، میدانِ جنگ میں جدید ہتھیار، جنگی طیارے اور میزائل استعمال ہو رہے ہوں تو دنیا کی آنکھیں صرف ایک لمحے کے لیے نہیں، بلکہ طویل عرصے تک اس منظر کو یاد رکھتی ہیں۔ حالیہ پاکستان-انڈیا کشیدگی نے نہ صرف خطے میں جنگ کے خطرات کو بڑھایا ہے بلکہ ایک خاموش طاقت چین کوبھی ایک نادر موقع فراہم کیا ہے۔ یہ موقع محض سفارتی نہیں بلکہ خفیہ معلومات اور جدید جنگی تجربات سے فائدہ اٹھانے کا ہے۔
سنگاپور کے سیکیورٹی تجزیہ کار الیگزینڈر نیل نے عالمی خبررساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ چین کے لیے یہ ایک نایاب اور قیمتی موقع ہے، جب اس کے سرحدی علاقوں کے قریب ایک ممکنہ دشمن اپنی عسکری صلاحیتوں کو کھول کر پیش کر رہا ہے۔ چین اب اس پوزیشن میں ہے کہ وہ انڈیا کی نقل و حرکت کو براہِ راست، زمین، سمندر اور خلا سے مانیٹر کر سکے۔
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کا امیگریشن کے ’ٹوٹے ہوئے نظام‘ کو درست کرنے کا فیصلہ، کیا اصلاحات ہوں گی؟
لندن کے انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز (IISS) کے مطابق چین کے پاس 267 سیٹلائٹس ہیں، جن میں سے 115 انٹیلیجنس، سرویلنس اور ریکونیسینس (ISR) کے لیے وقف ہیں، جب کہ 81 سیگنلز اور الیکٹرانک انٹیلیجنس پر مامور ہیں۔ یہ نیٹ ورک خطے میں انڈیا سمیت کسی بھی ملک سے کئی گنا طاقتور ہے۔

حالیہ جھڑپوں میں پاکستانی فضائیہ نے چینی ساختہ J-10 طیارے استعمال کیے، جن کے بارے میں دو امریکی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے انڈین ایئرفورس کے دو طیارے مار گرائے، جن میں ایک فرانسیسی ساختہ رافال بھی شامل ہے۔ انڈیا نے اب تک اپنے کسی بھی طیارے کی تباہی کی تصدیق نہیں کی، لیکن پاکستان کے وزرائے دفاع و خارجہ J-10 کے استعمال کی تصدیق کر چکے ہیں۔
یہ صورتحال چین کے لیے ایک قیمتی ‘لائیو ایکسرسائز’ کی مانند ہے، جس میں وہ اپنے ہتھیاروں، میزائلز اور پائلٹس کی کارکردگی کو عملی میدان میں دیکھ سکتا ہے، اس کے ساتھ ہی چین انڈین فضائیہ، اس کے دفاعی نظام اور جنگی حکمت عملیوں کا بھی تجزیہ کر سکتا ہے، جو کہ آئندہ کسی ممکنہ چینی-انڈین تصادم میں انتہائی کارآمد ثابت ہو سکتی ہیں۔
چینی انٹیلیجنس کے لیے سب سے زیادہ قیمتی معلومات وہ ہوں گی جو انڈیا کے ایئر ڈیفنس سسٹمز، کروز اور بیلسٹک میزائلز کے استعمال اور ان کے کنٹرول سسٹمز سے حاصل ہوں، خاص طور پر انڈین برہموس کروز میزائل، جو روس کے ساتھ مل کر تیار کیا گیا ہے، اگر استعمال ہوتا ہے، تو چین کے لیے ایک بڑا انٹیلیجنس ہدف ہو گا۔
واضح رہے کہ یہ معلومات نہ صرف میزائل کی رینج اور اسپیڈ بلکہ کنٹرول، لاک آن سسٹم اور لانچ پیٹرن تک کو ظاہر کر سکتی ہیں۔ ان معلومات کو چین اپنی دفاعی و تکنیکی ترقی کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

چین نے حالیہ برسوں میں انڈین سمندر میں اپنی سرگرمیاں بڑھائی ہیں۔ امریکی پینٹاگون کی رپورٹس اور اوپن سورس ٹریکرز کے مطابق چین نے اپنے اوشیانوگرافک ریسرچ جہازوں، فشنگ بیڑوں اور اسپیس ٹریکنگ ویسلس کو طویل مشنز پر تعینات کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نام نہاد ‘سویلین’ بیڑے اکثر انٹیلیجنس اکٹھا کرنے کا کام کرتے ہیں۔
یکم مئی کو ایکس پر پوسٹ کرنے والے اوپن سورس ٹریکر ڈیمیئن سائمن نے انکشاف کیا کہ 224 چینی فشنگ ویسلز انڈین نیول مشقوں کے قریب، تقریباً 120 ناٹیکل میل دور، منظم انداز میں موجود تھیں، جو ایک منظم ملٹری ملیشیا کا تاثر دیتی ہیں۔
یہ جہاز بحری مشقوں کی نقل و حرکت، ردعمل کی رفتار اور جنگی تیاریوں کو مانیٹر کر کے بیجنگ کو بروقت انٹیلیجنس فراہم کرتے ہیں، جو کہ خطے میں چین کی عسکری موجودگی کو خاموش مگر مؤثر انداز میں بڑھاتا ہے۔
پاکستان اور چین کے تعلقات کو ہمیشہ ‘ہر موسم کی اسٹریٹیجک پارٹنرشپ’ قرار دیا جاتا ہے۔ موجودہ کشیدگی میں، چین کی موجودگی اور شراکت داری پاکستان میں نہ صرف فوجی ہتھیاروں کی ترسیل تک محدود ہے، بلکہ چینی عسکری مشیر اور تکنیکی ماہرین بھی پاکستان میں موجود ہیں۔
سنگاپور کے اسکالر جیمز چار کے مطابق “چین کے عسکری اہلکاروں کی پاکستان میں موجودگی کوئی راز نہیں اور حالیہ کارروائیوں میں اکٹھا ہونے والی معلومات یقیناً PLA (چینی فوج) کے ہاتھ لگ رہی ہوں گی۔”

چین نہ صرف پاکستان-انڈیا کشیدگی کا بغور مشاہدہ کر رہا ہے، بلکہ اپنے تجزیاتی مراکز اور انٹیلیجنس نیٹ ورکس کے ذریعے عالمی سطح پر انڈین کمزوریوں کو اجاگر بھی کر رہا ہے۔ امریکی اثر و رسوخ کے کم ہوتے ماحول میں چین خود کو جنوبی ایشیا میں طاقتور اور قابلِ اعتماد کھلاڑی کے طور پر پیش کر رہا ہے۔
انڈیا کے ساتھ اس کا سرحدی تنازع 1962 کی جنگ سے لے کر 2020 کے گلوان تصادم تک مسلسل کشیدگی کا شکار ہے، چین کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنے اسٹریٹیجک حریف کی چالوں کو قریب سے جانچ سکے اور جب وقت آئے تو ان کا توڑ کر سکے۔
جب پاکستان اور انڈیا جنگی بیانات، فوجی نقل و حرکت اور دفاعی تیاریوں میں مصروف ہیں، چین ایک سادہ مگر خطرناک کھیل کھیل رہا ہے، جوکہ خاموشی سے سیکھنا، معلومات اکٹھی کرنا اور مستقبل کی حکمت عملی ترتیب دینا ہے۔
خیال رہے کہ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب دنیا صرف سرخیوں پر نظر رکھ رہی ہے، مگر اصل جنگ تو خلا میں، ڈیجیٹل نیٹ ورکس میں اور سیٹلائٹ ویوز میں لڑی جا رہی ہے اور اس جنگ کا سب سے بڑا فاتح، شاید وہ ہو گا جو خاموش ہے، لیکن سب دیکھ رہا ہے۔