خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی زیر صدارت محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم کا ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں صوبے میں آؤٹ آف اسکول بچوں کی بڑھتی ہوئی شرح پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ وزیر اعلیٰ نے ان اضلاع میں جہاں 50 فیصد یا اس سے زیادہ بچے اسکول سے باہر ہیں، تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کا فیصلہ کیا۔
وزیر اعلیٰ نے اجلاس میں کہا کہ صوبے میں آج بھی بچے فرش پر بیٹھ کر پڑھ رہے ہیں. سکولوں میں بچوں کی انرولمنٹ بڑھانے کے لیے کثیر الجہتی اقدامات کئے جائیں گے، اور اس مقصد کے لیے نئے مالی سال کے بجٹ میں متعدد اسکیمیں شامل کی جائیں گی۔ انہوں نے ہر ضلع کے مخصوص حالات کے مطابق قابل عمل پلان تیار کرنے اور فوری بنیادوں پر تعلیمی سہولیات کی فراہمی کے مختلف ماڈلز پر کام کرنے کی ہدایت بھی کی۔
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ بچیوں کا اسکول سے باہر ہونا لمحہ فکریہ ہے اور انرولمنٹ مہم میں ان کے داخلوں پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کا امیگریشن کے ’ٹوٹے ہوئے نظام‘ کو درست کرنے کا فیصلہ، کیا اصلاحات ہوں گی؟
انہوں نے واضح کیا کہ اب کوئی بھی سرکاری اسکول پینے کے پانی اور واش روم کی سہولت سے محروم نہیں ہوگا۔ تعلیم کو حکومت کی اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگلے بجٹ میں تعلیم کے شعبے پر مزید وسائل خرچ کیے جائیں گے، اور ان کا استعمال اعدادوشمار پر مبنی اور دانشمندانہ ہوگا۔
وزیر اعلیٰ نے سرکاری اسکولوں میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے اساتذہ کی تربیت، نئے اساتذہ کی میرٹ پر بھرتی اور مؤثر مانیٹرنگ نظام کے قیام پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ جہاں اسکولوں کی فوری ضرورت ہے وہاں کرائے کی عمارتوں میں اسکولز قائم کیے جائیں گے اور جہاں انرولمنٹ بہتر ہے وہاں اسکولوں کو اپگریڈ کیا جائے گا۔
مزید برآں، پہلے سے موجود اسکولوں میں لیبارٹریز، امتحانی ہالز اور دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے بھی اقدامات کرنے کی ہدایت کی گئی۔
وزیر اعلیٰ کے مطابق یہ تمام اقدامات اس بات کی طرف اشارہ ہیں کہ حکومت تعلیم کو صوبے کی ترقی کا بنیادی ستون سمجھتی ہے اور آئندہ سال کے دوران زیادہ سے زیادہ بچوں کو تعلیم کے دائرے میں لانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرے گی۔