Follw Us on:

مذاکرات ہوں گے لیکن روسی اور امریکی صدر شامل نہیں ہوں گے، امریکا اور روس کا ’اشارہ‘

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Putin

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اس بات کے اشارے دیے ہیں کہ وہ جمعرات کو ہونے والے ماسکو اور کیف کے درمیان پہلے براہ راست امن مذاکرات میں شرکت نہیں کریں گے۔ کریملن کی جانب سے ایک وفد روانہ کیا جا رہا ہے جس میں ٹیکنوکریٹس شامل ہوں گے۔ اس وفد میں صدارتی مشیر ولادیمیر میڈنسکی اور نائب وزیر دفاع الیگزینڈر فومین شامل ہوں گے، لیکن خود پیوٹن شرکت نہیں کریں گے۔

پیوٹن نے اتوار کے دن ترکی کے شہر استنبول میں بغیر کسی پیشگی شرط کے براہ راست مذاکرات کی تجویز دی تھی، جو یوکرین کے ساتھ کئی سالوں میں پہلا موقع ہے۔ تاہم جب کریملن نے بدھ کی رات وفد کے اراکین کی فہرست جاری کی تو اس میں پیوٹن کا نام شامل نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کا امیگریشن کے ’ٹوٹے ہوئے نظام‘ کو درست کرنے کا فیصلہ، کیا اصلاحات ہوں گی؟

اسی طرح امریکی حکام نے بھی واضح کیا کہ صدر ٹرمپ، جو مشرق وسطیٰ کے دورے پر ہیں، مذاکرات میں شریک نہیں ہوں گے، حالانکہ انہوں نے ماضی میں اس امکان پر غور کرنے کا ذکر کیا تھا۔ دونوں عالمی رہنماؤں کی غیر حاضری سے ان مذاکرات سے کسی بڑی پیش رفت کی امید کم ہو گئی ہے، حالانکہ یہ تنازعہ فروری 2022 سے جاری ہے۔

Zelensky with trump deals

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے پیوٹن کو براہ راست مذاکرات میں شریک ہو کر اپنی امن کی خواہش ثابت کرنے کا چیلنج دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر روس واقعی امن چاہتا ہے تو پیوٹن کو خود مذاکرات میں آنا چاہیے۔ یوکرینی اہلکاروں نے ترکی روانگی سے پہلے واضح کیا کہ ان کی شرکت پیوٹن کی موجودگی سے مشروط ہے۔

بدھ کی رات ویڈیو خطاب میں زیلنسکی نے کہا کہ یوکرین اپنے اگلے اقدامات کا فیصلہ پیوٹن کی شرکت سے متعلق معلومات کے بعد کرے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جنگ کے تمام بنیادی سوالات کا جواب ماسکو کے پاس ہے، اس لیے امن کی بحالی کے لیے فیصلہ بھی وہیں سے آنا ہو گا۔ ان کے مطابق جنگ کا خاتمہ پوری دنیا کی ذمہ داری ہے۔

دوسری طرف ٹرمپ نے تجویز دی ہے کہ دونوں ممالک فوری طور پر 30 دن کی جنگ بندی پر دستخط کریں تاکہ یورپ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد کی سب سے بڑی زمینی لڑائی کو روکا جا سکے۔ زیلنسکی نے اس جنگ بندی کی تجویز کی حمایت کی ہے، تاہم پیوٹن نے کہا ہے کہ وہ پہلے مذاکرات میں ان نکات پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں جن میں جنگ بندی بھی شامل ہو۔

ایک روسی قانون ساز کے مطابق ممکنہ امن بات چیت میں جنگی قیدیوں کے تبادلے پر بھی غور ہو سکتا ہے، مگر جب تک فریقین کے رہنما براہ راست شامل نہیں ہوتے، کسی فوری اور بڑی پیش رفت کی امید نہیں کی جا رہی۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس