پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والی حالیہ کشیدگی نے نہ صرف خطے میں امن کے امکانات کو متاثر کیا ہے بلکہ دونوں ممالک کی معیشتیں بھی اس تلخی کی بھاری قیمت چکا رہی ہیں۔
اگر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہوتے تو خطے میں تجارتی سرگرمیوں کے ذریعے اربوں ڈالر کی آمدنی ممکن تھی، لیکن بداعتمادی اور تنازعات نے ترقی کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔
پہلگام سے شروع ہونے والی یہ کشیدگی بالآخر جنگ بندی معاہدے کے ذریعے ختم ہوئی مگر اس نے جو اثرات مرتب کیے ہیں، وہ برسوں یاد رکھے جائیں گے۔
واہگہ بارڈر پر واقع تجارتی مرکز کبھی دونوں ممالک کے درمیان سامان کے تبادلے کا اہم ذریعہ تھا، مگر 2019 کے بعد تجارتی سرگرمیاں مکمل طور پر بند کر دی گئیں۔ دونوں جانب کے تاجروں کو شدید نقصان اٹھانا پڑا اور پہلگام واقعے کے بعد ایک بار پھر وہی ہوا۔
لاہور چیمبر آف کامرس کے سابق صدر نے کہا ہے کہ صرف ٹیکسٹائل سیکٹر میں ہی انڈیا سے سستی خام مال کی عدم دستیابی کی وجہ سے پیداواری لاگت میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس کا براہ راست اثر برآمدات پر پڑا ہے۔

پاکستان اور انڈیا کے مابین ہونے والی اس کشیدگی کا اثر نہ صرف دو طرفہ تجارت پر پڑا ہے بلکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) جیسے منصوبے بھی متاثر ہوئے ہیں۔
انڈیا کی جانب سے بلوچستان میں مبینہ مداخلت اور اس پر پاکستان کے تحفظات نے خطے میں غیرملکی سرمایہ کاری کو محدود کر دیا ہے۔
ایک نجی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے سابق سفیر عبدالباسط کا کہنا تھا کہ جب تک ہم انڈیا کے ساتھ تعلقات کو مستحکم نہیں کرتے، تب تک علاقائی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں قائم رہیں گی۔
ایک اور اہم پہلو دفاعی اخراجات میں مسلسل اضافہ ہے۔ 2024 کے بجٹ میں پاکستان نے دفاع کے لیے 1800 ارب روپے مختص کیے، جب کہ انڈیا کی دفاعی بجٹ کا حجم 70 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ یہ اخراجات صحت، تعلیم اور دیگر سماجی شعبوں پر منفی اثر ڈال رہے ہیں۔
معاشی ماہر ڈاکٹر قیصر بنگالی کے مطابق دونوں ممالک اگر صرف 10 فیصد دفاعی بجٹ تعلیم یا صحت پر لگا دیں تو جنوبی ایشیا کی غربت میں خاطر خواہ کمی آ سکتی ہے۔

انڈیا میں جاری سیاسی کشیدگی کے باوجودملک کی مالیاتی منڈیوں نے بارہا لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔ جے ایم فنانشل کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ماضی کے تنازعات جیسے 1962 کی چین-انڈیا جنگ، 1965 اور 1971 کی پاکستان-انڈیاجنگیں اور 1999 کی کارگل جنگ کے دوران انڈیاایکویٹی مارکیٹس پر محدود اثرات دیکھے گئے، جب کہ معیشت کو زیادہ نقصان ہوا۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1962 کی چین-انڈیا جنگ میں انڈیا کی جی ڈی پی میں 0.8 فیصد کی کمی واقع ہوئی، 1965 میں شرح نمو 7.5 فیصد سے کم ہو کر 2.6 فیصد رہ گئی،جب کہ1971میں جی ڈی پی کی شرح 5.2 فیصد سےکم ہو کر 1.6 فیصد ہو گئی۔
کبھی لاہور سے امرتسر تک بسیں چلا کرتی تھیں، فلم، موسیقی اور ادب کے ذریعے عوام کے درمیان تعلقات مضبوط ہوتے تھے۔ لیکن اب ویزہ پالیسی اتنی سخت ہو چکی ہے کہ دونوں ممالک کے شہری ایک دوسرے سے ملنے کا خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔
ملتان سے تعلق رکھنے والے ٹور آپریٹر شیراز ضمیر نے ‘پاکستان میٹرز’ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ویزہ پالیسی نرم ہو جائے تو مذہبی سیاحت کے ذریعے کروڑوں روپے سالانہ آمدنی حاصل ہو سکتی ہے، خاص طور پر سکھ یاتریوں کے لیے، اس کے علاوہ دونوں ممالک کے درمیان صدیوں پرانے روابط موجود ہیں۔
پاکستان انڈیا سے ادویات، کیمیکل اور دیگر اشیاء منگواتا تھا، ان اشیاء کی درآمد بند ہونے کے بعد پاکستانی صنعتکاروں کو مہنگی اشیاء متبادل ممالک سے منگوانا پڑتی ہیں، جس کا بوجھ آخرکار عام آدمی پر پڑتا ہے۔
نجی اسپتال کے ایک ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ انڈیا سے منگوائی گئی دوا جو پہلے 100 روپے کی ملتی تھی، اب وہی یورپ سے 300 روپے میں آتی ہے۔ایسے میں غریب آدمی کے لیے بہت مشکل ہے کہ وہ یہ دوا خرید سکے۔
عالمی تجارتی اجلاس میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری نے اس بات پرزور دیا کہ جنوبی ایشیا میں ترقی کا راستہ امن سے ہو کر گزرتا ہے۔ پاکستان اور انڈیا اگر اپنے تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کریں تو یہ پورے خطے کی معاشی تصویر بدل سکتا ہے۔

شعبہ تاریخ کے پروفیسر عمران علی خان نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور انڈیا کی کشیدہ سیاسی فضا نے دوطرفہ تجارت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ 2019 کے بعد جب کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کی گئی، تو اس نے دونوں ممالک کے درمیان خلش کو جنم دیا۔اگرچہ تجارت سے دونوں معیشتوں کو فائدہ ہو سکتا تھا، مگر سیاسی کشیدگی نے معاشی امکانات پر پردہ ڈال دیا۔”
ماہرین، صنعتکار اور پالیسی ساز اس بات پر متفق ہیں کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کا سب سے بڑا نقصان عوام اور معیشت کو ہوتا ہے۔ خطے میں امن، ترقی اور خوشحالی اسی وقت ممکن ہے، جب سیاسی تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔
جے ایم فنانشل کی رپورٹ اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ معیشت کی لچک ممکن ہے، لیکن سیاسی بصیرت کے بغیر ترقی کی راہ ہموار نہیں ہو سکتی۔