ٹرمپ انتظامیہ نے شام پر عائد اقتصادی پابندیاں مؤثر طریقے سے ختم کرنے کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد خانہ جنگی سے تباہ حال ملک کی تعمیر نو میں مدد فراہم کرنا ہے۔
رواں ماہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وعدے کے مطابق یہ اعلان سامنے آیا ہے کہ وہ شام میں بحالی کی کوششوں کو فروغ دیں گے۔
امریکی محکمہ خزانہ نے ایک عمومی لائسنس (GL25) جاری کیا ہے، جس کے تحت شام کی عبوری حکومت، مرکزی بینک اور دیگر سرکاری اداروں کے ساتھ لین دین کی اجازت دی گئی ہے۔ اس لائسنس کے مطابق، شام پر عائد پابندیوں میں نرمی لاتے ہوئے وہاں نئی سرمایہ کاری اور نجی شعبے کی سرگرمیوں کو ممکن بنایا جائے گا۔
امریکی محکمہ خزانہ نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ اقدام “امریکہ فرسٹ” حکمت عملی کا حصہ ہے اور اس کا مقصد شام میں معاشی سرگرمیوں کو دوبارہ بحال کرنا ہے۔ اس کے علاوہ، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے “سیزر ایکٹ” کے تحت 180 دن کی رعایت دی ہے تاکہ پابندیاں انسانی بنیادوں پر جاری کوششوں، بجلی، پانی، توانائی اور صفائی کے شعبے میں کام کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’ایک قومی بحران‘، امریکا کے درآمدی ٹیکس جاپان کی گاڑیوں کی صنعت کے لیے خطرہ بن گئے
روبیو کے مطابق، یہ ابتدائی قدم صدر ٹرمپ کے اس وژن کا حصہ ہے جو شام اور امریکا کے درمیان ایک نئے تعلق کا آغاز کرتا ہے، پابندیوں میں نرمی کے بعد شامی حکومت سے عملی اقدامات کی توقع کی جا رہی ہے، جن میں تمام غیر ملکی جنگجوؤں کا شام سے انخلا، فلسطینی دہشت گردوں کی ملک بدری، اور داعش کے دوبارہ ابھرنے کو روکنے کے لیے امریکا سے تعاون شامل ہے۔
وائٹ ہاؤس نے گزشتہ ہفتے صدر ٹرمپ اور شامی صدر احمد الشارع کی ملاقات کے بعد بتایا تھا کہ امریکا نے شام کو اقتصادی ریلیف دینے کے بدلے مخصوص شرائط پر عمل کرنے کا کہا ہے۔ ان شرائط میں خطے میں امن قائم کرنا اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا شامل ہے۔
صدر ٹرمپ کا یہ اقدام ایک واضح پیغام ہے کہ امریکا مشروط طور پر شام کے ساتھ تعلقات بحال کرنے اور وہاں استحکام قائم کرنے کے لیے تیار ہے۔