پاکستان میں رواں سال مال مویشیوں کی تعداد میں واضح اضافہ دیکھا گیا ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ گدھوں کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ ایک سال کے دوران گدھوں کی تعداد میں ایک لاکھ 9 ہزار کا اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد ان کی مجموعی تعداد 59 لاکھ 38 ہزار سے بڑھ کر 60 لاکھ 47 ہزار ہو گئی ہے۔
گدھے دیہی علاقوں میں اب بھی سامان ڈھونے اور ٹرانسپورٹ کے لیے اہم سمجھے جاتے ہیں، حالانکہ شہروں میں ان کی اہمیت کم ہو رہی ہے۔
Number of donkeys in the country increased by 109,000 over the past year. As a result, the total donkey population rose from 5.938 to 6.047 million. (Bureau of Ststistics). Interesting.
— Muhammad Haroon Aslam (@AVeteran1956) June 6, 2025
پاکستان بیورو آف سٹیٹکس کے مطابق 2025 میں ملک میں مال مویشیوں کی مجموعی تعداد تقریباً 22 کروڑ 50 لاکھ ہو گئی ہے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔
ان جانوروں میں سب سے زیادہ تعداد بکریوں کی ہے، جن کی تعداد 8 کروڑ 70 لاکھ 35 ہزار سے بڑھ کر 8 کروڑ 93 لاکھ 93 ہزار ہو گئی ہے۔ بکریاں دیہی علاقوں میں دودھ، گوشت اور کھال کے لیے استعمال ہوتی ہیں، اور ان کی افزائش میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
بھینسوں کی تعداد میں بھی 13 لاکھ 78 ہزار کا اضافہ ہوا ہے۔ اب ملک میں بھینسوں کی تعداد 4 کروڑ 63 لاکھ 10 ہزار سے بڑھ کر 4 کروڑ 76 لاکھ 88 ہزار ہو گئی ہے۔ بھینسیں دیہی علاقوں میں دودھ کی اہم ترین ذریعہ ہیں اور ڈیری انڈسٹری میں ان کا اہم کردار ہے۔
بھیڑوں کی تعداد میں بھی تھوڑا سا اضافہ ہوا ہے۔ اب یہ تعداد 3 کروڑ 31 لاکھ 19 ہزار ہے، جو پہلے 3 کروڑ 27 لاکھ 31 ہزار تھی۔ یہ جانور زیادہ تر پہاڑی علاقوں میں پائے جاتے ہیں، اور ان کا گوشت اور اون وہاں کے لوگوں کی آمدن کا ذریعہ ہے۔
پاکستان میں گایوں کی تعداد بھی تقریباً 5 کروڑ 75 لاکھ کے قریب ہے۔ گائے دودھ اور گوشت کے لیے استعمال ہوتی ہیں اور دیہات میں روزمرہ زندگی کا حصہ ہیں۔
اونٹوں کی تعداد تقریباً 12 لاکھ بتائی گئی ہے، جو خاص طور پر صحرائی علاقوں میں سواری، بوجھ اٹھانے، قربانی اور ثقافتی تقریبات میں استعمال ہوتے ہیں۔
یہ تمام مال مویشی ملک کی زرعی معیشت کا اہم حصہ ہیں۔ دیہی علاقوں کے تقریباً 80 لاکھ گھرانے اپنی آمدن کا 35 سے 40 فیصد انہی جانوروں سے کماتے ہیں۔
لائیو سٹاک کا شعبہ دودھ، گوشت، کھال، روزگار اور زراعت کے لیے نہایت اہم ہے۔ اس وقت اس کی مجموعی مالیت 55 کھرب روپے سے بڑھ چکی ہے، جو ملک کی معیشت میں بڑا حصہ ڈال رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر جانوروں کی نسلیں بہتر بنانے، ویکسین، چارہ اور مارکیٹ تک رسائی جیسے مسائل پر بروقت کام کیا جائے تو یہ شعبہ دیہی غربت کم کرنے اور زرمبادلہ کمانے کا مؤثر ذریعہ بن سکتا ہے۔