عید! ایک ایسا تہوار جو ہر سال نہ صرف ایمان کی تجدید کرتا ہے بلکہ گھروں میں خوشیوں، دسترخوانوں پر مہمان نوازی اور دلوں میں اپنائیت بھر دیتا ہے، لیکن کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ پاکستان جیسے کثیرالثقافتی ملک میں عید ہر جگہ ایک ہی طرح نہیں منائی جاتی؟
نہیں! یہاں ہر وادی، ہر میدان، ہر پہاڑ اور ہر بستی کی عید ایک الگ انداز میں سانس لیتی ہے۔
یہ صرف ایک دن نہیں، بلکہ ان گنت کہانیوں، رسموں، نغموں، رنگوں اور جذبات کا امتزاج ہے۔
آئیے! پاکستان کی گلیوں سے ہٹ کر اُن پہچانوں کی طرف سفر کو چلتے ہیں، جہاں عید روایتی انداز سے کچھ مختلف مگر بہت ہی خاص طریقے سے منائی جاتی ہے۔
کوہِ ہندوکش کے دامن میں چھپی وادی کیلاش میں عید کا مفہوم صرف مذہبی فریضہ نہیں، بلکہ ثقافتی ورثے کی جھلک ہے۔ یہاں خواتین اپنے سروں پر رنگین، سیپیوں اور موتیوں سے سجے ہوئے تاج یا شوشوٹ پہنتی ہیں۔
عید کے قریب یہاں بہار کی آمد کے ساتھ ساتھ چلم جوشی کا تہوار بھی منایا جاتا ہے۔ یہ وادی موسیقی، رقص اور دعاؤں سے گونج اٹھتی ہے۔ خوشحالی، نئی زندگی اور مویشیوں کی حفاظت کے لیے دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں رقص کرتے ہیں اور بعض اوقات یہی میل ملاقات محبت میں بدل جاتی ہے۔
کیلاش کی یہ عید فطرت اور روحانیت کا حسین امتزاج ہے۔

سندھ میں عید صرف نماز اور کھانے کا دن نہیں بلکہ ایک روحانی سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ یہاں عید کی راتوں میں بیٹھکیں سجتی ہیں، جہاں یکتارو کی آواز، چپّر کی تھاپ اور صوفی کلام کی نرمی روح کو چھو لیتی ہے۔
لوک گیت، شاہ لطیف اور سچل سرمست کی شاعری دل کو ایسا چھوتی ہے کہ عید کا ہر لمحہ ایک روحانی محفل میں ڈھل جاتا ہے۔ لوگ گاؤں کی بیٹھکوں، آنگنوں اور صحنوں میں جمع ہو کر اجتماعی ذکر کرتے ہیں اور رشتوں کو محبت کی زبان میں تازہ کرتے ہیں۔
پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی لاہور میں زیر تعلیم سندھ سے تعلق رکھنے والے محمد رضا نے کہا ہے کہ سندھ میں عید کے دن الگ سماں بندھ جاتا ہے، بچے بوڑھے اور جوان سب اپنے اپنے طریقے سے پرجوش انداز میں عید کو مناتے ہیں۔
بلوچستان میں عید کا استقبال کئی ہفتے پہلے شروع ہو جاتا ہے۔ خواتین رنگین دھاگوں سے وہ روایتی لباس تیار کرتی ہیں جن پر کڑھائی کی ہر سلائی میں دعائیں چھپی ہوتی ہیں۔
یہ بلوچی کڑھائی صرف خوبصورتی نہیں، بلکہ خواتین کی خودمختاری، پہچان اور وراثت کی ایک علامت ہے۔ عید کے دن یہ خواتین ان رنگین لباسوں میں جب نکلتی ہیں تو جیسے ہر دھاگہ اُن کے خوابوں اور ثقافت کی داستان سناتا ہے۔

شمالی پاکستان کی حسین وادی، ہنزہ میں عید ایک شکر گزاری کی علامت ہے۔ یہاں کے لوگ فطرت کے قریب ہیں اور عید کے موقع پر جب خوبانی کے درخت کھلتے ہیں تو پورا علاقہ خوشبو سے مہک اٹھتا ہے۔
عید کی صبح خاندان جمع ہوتے ہیں، روایتی پکوان جیسے خوبانی کا شوربہ، مقامی نان اور گوشت کے کھانے تیار ہوتے ہیں۔
کھانے کے بعد بزرگ کہانیاں سناتے ہیں، بچے کھیلتے ہیں اور پوری برادری ایک اجتماعی تجربہ جیتی ہے جو نہایت سادہ لیکن روح کو چھو لینے والا ہوتا ہے۔
عید کے دن پوٹھوہار کے میدانوں میں آسمان رنگین پتنگوں سے بھر جاتا ہے۔ پتنگ بازی یہاں ایک روایت ہے جو عید کی خوشیوں کا لازمی جزو سمجھی جاتی ہے۔
گھروں میں حلوہ پوری، نہاری، سری پائے اور دیگر دیسی پکوانوں کی خوشبو پھیلتی ہے۔
دوستانہ پتنگ بازی کے مقابلے، ہنسی مذاق اور دسترخوانوں پر بیٹھے مہمان، یہ سب پوٹھوہاری عید کا خوبصورت عکس ہیں۔
جنوبی پنجاب یعنی سرائیکی وسیب میں عید کی رات ایک روحانی منظر پیش کرتی ہے۔ یہاں کاغذ کے بنے چراغوں میں شمعیں جلا کر انہیں دریا کی لہروں کے سپرد کیا جاتا ہے۔
یہ چراغ ماضی کی رنجشوں کو بہا کر لے جانے اور نئے آغاز کی علامت ہوتے ہیں۔ دریا کی سطح پر جھلملاتے چراغ جیسے دعا بن کر روشنی دیتے ہیں، ایک خوبصورت روایت جو آج بھی خاموشی سے زندہ ہے۔

چترال کی برفیلی ہواؤں میں جب عید آتی ہے تو مقامی لوگ روایتی لباس پہن کر جلوس کی شکل میں گھروں کے باہر نکلتے ہیں۔
یاک جو اس خطے کا روایتی جانور ہے، اُس کی گردن میں بندھی گھنٹیوں کی آواز پورے علاقے میں گونجتی ہے۔
یہ جلوس گھر گھر جا کر مبارکباد دیتا ہے، مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں، بچے تحفے اور عیدی لیتے ہیں۔ عید کی یہ سادگی چترال میں محبت، سادگی اور اخلاص کی مکمل عکاسی کرتی ہے۔
قارئین یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ وہ پاکستان ہے جو شاید خبروں، کتابوں یا سوشل میڈیا پر کم نظر آتا ہے۔ کالاش کی تاج پوشی سے لے کر سرائیکی خطے کے چراغ، چترال کی یاک کی گھنٹیاں اور سندھ کے صوفی نغمے، ہر ایک روایت پاکستان کی تہذیبی روح کو ظاہر کرتی ہے۔
یہ چھوٹے چھوٹے دھاگے مل کر عید کے اس خوبصورت قالین کو بُنتے ہیں جو ہماری شناخت ہے۔ لیکن افسوس! ان میں سے کئی روایات غیر دستاویزی ہیں اور وقت کے ساتھ کھو جانے کے خطرے سے دوچار ہیں۔
جب ہم عید مناتے ہیں تو صرف نئے کپڑے اور مٹھائیاں ہی کافی نہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان چھپی ہوئی روایات کو پہچانیں، محفوظ کریں اور آگے بڑھائی کیونکہ ہر روایت ایک دعا، ہر کمیونٹی ایک کہانی ہے اور یہی پاکستان کی اصل طاقت ہے۔