13 جون کی رات تہران کی فضا دھماکوں سے گونج اٹھی، اسرائیلی لڑاکا طیارے ایران کے جوہری اور فوجی مراکز پر حملہ آور ہوئے۔ درجنوں اسرائیلی لڑاکا طیارے فضاء میں پرواز کر رہے تھے، جن کے میزائل ایران کے اعلیٰ جوہری اور فوجی مراکز کو نشانہ بنا رہے تھے، جسے اسرائیل نے ‘آپریشن رائزنگ لائن’ کا نام دیا ہے۔
نشانہ بننے والی جگہوں میں نطنز کا یورینیم افزودگی پلانٹ، زیرزمین میزائل گودام اور پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈرز کی رہائش گاہیں شامل تھیں۔ ایک بڑے حملے میں پاسداران انقلاب کے سربراہ جنرل حسین سلامی اور ایران کی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل محمد باقری شہید ہو گئے۔
دی ٹائمز کے مطابق ایرانی قیادت نے اسرائیلی حملوں کو ‘اعلانِ جنگ’ قرار دیا ہے۔ اسرائیل سے سفارتی بات چیت منسوخ کرتے ہوئے شدید جوابی کارروائی کی دھمکی بھی دی ہے۔ اسی سلسلے میں 100 سے زائد ڈرونز اسرائیل کی طرف روانہ کیے جا چکے ہیں۔ تیل کی عالمی منڈی میں ہلچل مچ گئی، فضائی راستے بدل دیے گئے اور دنیا دم سادھے بیٹھ گئی۔ عالمی رہنما کشیدگی کم کرنے میں لگے ہیں وہیں اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے اکیلے ہی یہ کارروائی کی ہے۔
کبھی ایران اور اسرائیل ایک دوسرے کے بہت قریب تھے، اتنے قریب کہ سن کر حیرت ہوتی ہے۔1960 اور 70 کی دہائی میں، شاہِ پہلوی کے دور میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات عروج پر تھے۔
اسرائیل ہر سال ایران کو آدھے ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کرتا تھا، دونوں ممالک نے مل کر زمین سے زمین تک مار کرنے والے میزائل اور ایک زیرسمندر تیل پائپ لائن کا منصوبہ بھی بنایا تھا۔ یہ اتحاد باقی مشرق وسطیٰ کے لیے حیران کن تھا۔ سعودیہ، مصر، شام اور دیگر ممالک نے تو 1948 کے نکبہ فلسطین کے واقعات کے بعد اسرائیل سے تعلقات منقطع کر لیے تھے۔
سال 1979 جب اسلامی انقلاب کے بعد شاہِ پہلوی کا اقتدار ختم ہوا اور آیت اللہ خمینی نے اقتدار سنبھالا۔ نئی قائم شدہ اسلامی جمہوریہ نے سامراج مخالف، نوآبادیاتی مخالف اور شدید اسرائیل مخالفت سے ایک نئی شناخت اختیار کی۔ شاہِ پہلوی کے تعلقات عوامی غصے کا مرکز بن گئے۔ ‘مرگ بر امریکا’ اور ‘لعنت بر یہود’ جیسے نعرے گلیوں اور مساجد میں گونجنے لگے۔
یہ تبدیلی تیز اور ذاتی نوعیت کی تھی جس نے نئی حکومت کی نظریاتی بنیاد رکھی۔ رضا پہلوی کا اسرائیل سے گہرے تعلقات والا ایران ختم ہو چکے تھا۔ اس کی جگہ خمینی کا ایران ابھرا جو اسرائیل کو ہمسایہ نہیں بلکہ مغربی مداخلت کی صہیونی چوکی سمجھتا تھا۔ پہلے والے دوستانہ تعلقات رات و رات ختم ہو گئے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ایران نے جغرافیائی تزویراتی مفادات کے بجائے مذہبی روایات کو ترجیح دی جس کے نتیجے میں موجودہ تنازعے نے جنم لیا۔
ایران نے اسرائیل کے خلاف طاقت کا استعمال براہِ راست کبھی نہیں کیا۔ یہ بہت خطرناک تھا کہ ایران نے شاذ و نادر ہی اسرائیل پر براہِ راست میزائل فائر کیے ہوں۔ اس کی بجائے ایران نے ‘محور مزاحمت’ کے نام سے جانی جانے والی حکمتِ عملی تشکیل دی۔ یہ ملیشیاؤں اور غیر ریاستی گروہوں کا ایک نیٹ ورک ہے۔
غزہ میں حماس، مغربی کنارے میں اسلامی جہاد، لبنان و شام میں حزب اللہ، عراق میں شیعہ ملیشیائیں، اور یمن میں حوثیوں کو اس نیٹ ورک کا حصہ مانا جاتا ہے۔ یہ ایک علاقائی شطرنج کی بساط ہے جس میں تمام چالیں اسرائیل اور مغربی اثر و رسوخ کا گھیرا تنگ کرنے کے لیے کھیلی جاتی ہیں۔
7 اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا، صرف 20 منٹ میں 3,000 راکٹ داغے گئے جو کہ شاید سب سے ڈرامائی مثال تھی۔ اس حملے میں 1,100 سے زائد اسرائیلی ہلاک ہوئے، یرغمالی بنائے گئے اور فلسطینیوں پر تشدد کی ایک نئی لہر شروع ہو گئی۔
حماس کی جانب سے بیان آیا کہ اسرائیل پر حملے کا فیصلہ ان کا اپنا تھا لیکن اس کے باوجود ایران پر شدید الزام لگایا گیا۔ مگر تہران نے سرکاری طور پر اپنے پراکسی کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر حماس کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا تو بدلہ لیا جائے گا۔
ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی طیاروں اور موساد کی قیادت میں تخریب کاری نے نطنز، اصفہان میں جوہری تنصیبات اور میزائل گوداموں کو نشانہ بنایا۔ سالمی اور باقری سمیت اعلیٰ قیادت کو ٹارگٹ کیا گیا۔
مارکیٹ واچ ڈاٹ کام کے مطابق ایران نے ڈرون حملوں کے ذریعے جواب دیا اور انتقام کا عزم ظاہر کیا۔ علاقائی منڈیوں میں ہلچل مچ گئی، تیل کی قیمتوں میں 14 فیصد اضافہ ہو گیا اور اسٹاک فیوچرز گر گئے۔ جرمنی سے لے کر روس تک کے ممالک نے تشویش کا اظہار کیا۔
اگر بات کی جائے حماس کی تو ایران پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ایران چاہے حماس کو براہ راست کنٹرول نہ کرتا ہو لیکن اسے مالی اور عسکری طور پر سپورٹ کرتا ہے۔ 7 اکتوبر کو حماس انتہائی مہلک ثابت ہوئی۔ ایران پسِ پردہ حماس کی حمایت کرتا ہے لیکن انہیں کسی حد تک خودمختاری بھی دیتا ہے۔
ایران کا سب سے طاقتور پراکسی حزب اللہ، لبنان میں ایک مسلح ملیشیا اور سیاسی قوت ہے۔ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ باقاعدگی سے فائرنگ کا تبادلہ کیا ہے، آپریشن رائزنگ لائن کے بعد وہ سرحد پار راکٹ فائر کر چکے ہیں جس سے کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق سیکریٹری آف اسٹیٹ روبیو نے بار بار کہا کہ امریکہ شامل نہیں تھا۔ انہوں نے صرف امریکی افواج کے دفاع کا ذکر کیا نہ کہ حملے کی تائید کی۔