سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے ملک کے بڑے کلبز پر ٹیکس عائد کرنے کی تجویز منظور کر لی ہے۔ تجویز کی منظوری سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں دی گئی، جس میں چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) راشد محمود لنگڑیال نے تفصیلی بریفنگ دی۔
چیئرمین ایف بی آر نے اجلاس کو بتایا کہ ملک کے کئی بڑے کلبز، جن میں اسلام آباد کلب بھی شامل ہے، محدود افراد کی تفریح اور آرام دہ سہولیات کے لیے قائم ہیں۔
ان کے بقول، “یہ کلبز صرف 3 ہزار لوگوں کی عیاشی کے لیے بنے ہوئے ہیں۔ بڑے بڑے کلبوں نے اربوں روپے اپنے اکاؤنٹس میں رکھے ہوئے ہیں۔ ایک ایک ملین ڈالر کی زمین ہے اور چند لوگ عیاشی کر رہے ہیں۔”

راشد محمود لنگڑیال نے کہا کہ ایف بی آر کی جانب سے تجویز دی گئی ہے کہ “کسی بھی کلب کے منافع پر ٹیکس لگایا جائے گا۔” اجلاس میں اس تجویز کو سینیٹ کی کمیٹی نے منظور کر لیا، تاہم آن لائن کامرس پر ٹیکس لگانے کی تجویز کو مسترد کر دیا گیا۔
اجلاس کے دوران چیئرمین ایف بی آر نے آئندہ مالی سال 2024-25 کے بجٹ سے متعلق مزید تفصیلات بھی فراہم کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سالانہ 6 لاکھ روپے آمدن تک انکم ٹیکس کی چھوٹ کی تجویز زیر غور ہے، جب کہ 6 سے 12 لاکھ روپے سالانہ آمدن پر 2.5 فیصد انکم ٹیکس لاگو ہو گا۔ ان کے مطابق، “ایک لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ پر ایک ہزار روپے ٹیکس دینے سے کوئی آسمان نہیں گرے گا۔”
سینیٹر محسن عزیز نے اس موقع پر رائے دی کہ “انکم ٹیکس کی سالانہ چھوٹ کی حد 12 لاکھ روپے ہونی چاہیے۔” سینیٹر شبلی فراز نے بھی مالی دباؤ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ “آج 50 ہزار روپے کی ویلیو 42 ہزار روپے ہو چکی ہے۔” اجلاس میں شریک اراکین نے آن لائن کاروبار پر ٹیکس عائد کرنے کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا، جس کے بعد یہ تجویز مسترد کر دی گئی۔