Follw Us on:

فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات، امن و ترقی کی نوید یا آزمائش کا پیش خیمہ؟؟؟

خالد شہزاد فاروقی
خالد شہزاد فاروقی
Trump & asim munir
ایران  نے اپنے اتحادی گروہوں کو بھی متحرک کر دیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کی وائٹ ہاوس آمد کو پاکستانی میڈیا میں ایک ”تاریخی کامیابی“ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دعوت پر ان کی مہمان نوازی، تصویری مسکراہٹیں، پرجوش مصافحے اور رسمی ظہرانہ، یہ سب کچھ بظاہر ایک قومی وقار کی تصویر دکھا رہے ہیں لیکن کیا یہ صرف ایک سفارتی اعزاز ہے؟ یا اس کے پس منظر میں وہی پرانے کھیل، مفادات، دباو اور پوشیدہ معاہدے کارفرما ہیں، جن سے پاکستان کی تاریخ بھری پڑی ہے؟

اس سوال کا جواب صرف خوش فہمیوں یا رسمی بیانات سے نہیں بلکہ ٹھوس تاریخی شواہد، حالیہ عالمی تناظر اور خطے میں بگڑتی ہوئی صورتحال کو سامنے رکھ کر ہی دیا جا سکتا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خصوصی دعوت پر وائٹ ہاوس کا دورہ کرنے والے پہلے پاکستانی فیلڈ مارشل ہونے کا اعزاز بھی انہیں دیا جا رہا ہے، جہاں ایک طرف یہ ایک بظاہر قابل فخر لمحہ ہے، وہیں دوسری طرف ماضی کی تلخ تاریخیں ہمیں احتیاط، تدبر اور ہوشیاری کی تلقین کرتی ہیں۔

پاکستان جیسے ملک کے لیے جو امریکی امداد، دباو، دوغلی پالیسیوں اور محدود خودمختاری کے سائے میں پروان چڑھا ہے، کسی بھی قسم کا امریکی اعزاز یا مسکراہٹ ایک”خاموش شرط“سے خالی نہیں ہوتا۔ یہ امر قابل غور ہے کہ فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کی وائٹ ہاوس آمد ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے،  جب پاکستان اندرونی طور پر شدید سیاسی خلفشار، معاشی زوال اور بیرونی دباو کا شکار ہے، جب کہ جب مشرق وسطیٰ آگ میں جل رہا ہے۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان مسلح تصادم شدت اختیار کر چکا ہے۔ ایران کے جوابی میزائل حملوں  نے اسرائیل کے اس دفاعی غرور کو چکنا چور کر دیا ہے، جو Iron Dome جیسے سسٹمز پر استوار تھا۔ تہران کا مؤقف بالکل واضح ہے کہ اگر اسرائیل  نے مزید جارحیت کی تو پورے خطے کو آگ میں جھونک دیا جائے گا۔

ان حملوں کے بعد ایران  نے اپنے اتحادی گروہوں کو بھی متحرک کر دیا ہے، حزب اللہ، حماس اور حوثی ایک نئے دائرہ کار میں داخل ہو چکے ہیں اور امریکا بطور” اسرائیل کا پشتیبان “بن کر میدان میں اتر چکا ہے۔ صدر ٹرمپ کھل کر ایران کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ایران  نے اسرائیل کے خلاف کوئی اور ”غیر محتاط قدم“اٹھایا تو امریکہ اسے صفحہ ہستی سے مٹا دے گا۔

یہ صرف زبانی دھمکیاں نہیں بلکہ خطے میں امریکی بحری بیڑوں کی تعیناتی، اسرائیل کو ہتھیاروں کی نئی کھیپ اور عرب ریاستوں پر سفارتی دباو سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرق وسطیٰ ایک نئے عالمی محاذ کا گڑھ بن چکا ہے۔

ایسے میں ایک طاقتور فیلڈ مارشل کا عالمی اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ کسی نئے باب کا آغاز ہو سکتا ہے لیکن یہ باب کیا امن و ترقی کی نوید لائے گا یا ایک اور آزمائش کا پیش خیمہ بنے گا؟یہ سوال وقت سے پہلے خوش فہمیوں میں گم نہیں ہونا چاہیے۔

اگر تاریخ کی کالی سیاہی سے کچھ سیکھنے کی کوشش کی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ امریکا کی جانب سے”دوستی“کا ہر ہاتھ دراصل مفادات کا ترازو لیے ہوتا ہے۔ جنرل ایوب خان سے  لے کر جنرل مشرف تک،پاکستان کی عسکری قیادت امریکا سے نہ صرف ظاہری عزتیں سمیٹتی رہی بلکہ ہر دور میں واشنگٹن کے ”اعتماد“کا دعویٰ کرتی رہی لیکن اس کے بدلے میں جو کچھ پاکستان  نے کھویا وہ ناقابل تلافی رہا۔

اب سوال یہ ہے کہ ایسے حالات میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کی وائٹ ہاوس آمد کیا معنی رکھتی ہے؟کیا پاکستان کو خطے میں کسی نئی امریکی سکیم میں شامل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟کیا یہ دورہ محض افغان امور،آئی ایم ایف پیکیج یا انسداد دہشت گردی کے نام پر ہو رہا ہے یا پس پردہ،ایران،چین،روس اور فلسطین جیسے معاملات پر کوئی”پالیسی شیئرنگ“ ہو رہی ہے؟کیا پاکستان سے اسرائیل کے حوالے سے نرمی،ایران سے فاصلہ یا چینی اثر و رسوخ کے خلاف کوئی غیر رسمی وعدہ لیا جا رہا ہے؟

ان سوالات کو محض قیاس آرائی کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا،کیونکہ ماضی کے ریکارڈز ہمیں خبردار کرتے ہیں کہ امریکی دوستی ہمیشہ”مہنگے سودے“کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ جنرل ایوب خان 1958 میں جب پہلی بار امریکا کے دورے پر گئے تو انہیں وائٹ ہاوس میں خصوصی دعوت دی گئی۔

امریکی صدر آئزن ہاور  نے ان کا پرتپاک استقبال کیا اور انہیں”ایشیا کی امید“کے طور پر پیش کیا گیا لیکن اس”اعتماد“کا نتیجہ کیا نکلا؟پاکستان کو سیٹو اور سینٹو جیسے فوجی معاہدوں میں جھونک دیا گیا،جہاں پاکستان  نے اپنے قومی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے امریکہ کے اشاروں پر خارجہ و داخلی پالیسی مرتب کی۔ انڈیا کے ساتھ جنگ ہو یا بنگلہ دیش کی علیحدگی،امریکہ  نے ہمیشہ”دوستی“ کے باوجود پاکستان کو مایوس کیا۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں پاکستان  نے امریکی مفادات کے لیے افغانستان کو جنگ کا میدان بنایا لیکن اس جنگ کا منطقی انجام پاکستان کے لیے خودکش حملے،شدت پسندی،اسلحہ کلچر،ہیروئن مافیا اور قبائلی علاقوں کی تباہی کی صورت میں سامنے آیا۔ امریکا  نے نہ صرف پاکستان کو تنہا چھوڑا بلکہ بعد ازاں اسے دہشت گردی کا”ممکنہ سپانسر“قرار دینا شروع کر دیا۔ کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ جس ملک  نے سوویت شکست میں بنیادی کردار ادا کیا، اُسی پر بعد ازاں دہشت گردی کے الزامات لگائے گئے؟

نائن الیون کے بعد جنرل مشرف کی امریکا نوازی اور ایک کال پر” سب کچھ“ تسلیم کر لینا تاریخ کے کربناک باب ہیں۔  پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف”فرنٹ لائن ریاست“بن کر امریکا کو جو سہولت دی،اس کے بدلے میں ملا کیا؟80 ہزار جانیں،150 ارب ڈالر کا اقتصادی نقصان اور اندرونی طور پر تقسیم شدہ،غیر محفوظ اور”مشکوک ریاست“کی شناخت۔  2011 میں ایبٹ آباد آپریشن اور سلالہ چیک پوسٹ جیسے واقعات  نے واضح کر دیا کہ امریکا صرف اس وقت ساتھ دیتا ہے جب اس کا مفاد ہو،جیسے ہی مفاد پورا ہوا،وہ ساتھ چھوڑ دیتا ہے اور الزام بھی پاکستان پر تھوپ دیتا ہے۔

ایران اسرائیل جنگ کے تناظر میں بھی پاکستان کے لیے ایک”نیا امتحان“ کھڑا ہو سکتا ہے۔ ایران پاکستان کا ہمسایہ ہے،مذہبی،تہذیبی اور جغرافیائی رشتے صدیوں پر محیط ہیں۔ چاہ بہار اور گوادر جیسے علاقائی منصوبے،پاک ایران گیس پائپ لائن اور سرحدی تعاون کے کئی مواقع موجود ہیں۔

دوسری طرف اسرائیل ایک ایسی ریاست ہے جسے پاکستان  نے آج تک تسلیم نہیں کیا اور جس کا قیام خود مسلم اُمہ کے لیے ایک ”زخم“کی مانند ہے۔ اگر امریکا، پاکستان پر اسرائیل سے متعلق کسی قسم کی”نرمی“یا ایران سے”دوری“ کا دباو ڈالتا ہے تو یہ صرف خارجہ پالیسی کا بحران نہیں بلکہ قومی وقار اور نظریاتی تشخص کا مسئلہ بن جائے گا۔

فیلڈ مارشل عاصم منیر بلاشبہ ایک سنجیدہ، باوقار اور حب الوطنی سے لبریز فوجی ہیں لیکن تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ذاتی صفات”سفارتی جالوں“ سے بچانے کے لیے کافی نہیں ہوتیں، جس واشنگٹن  نے ایرانی شاہ رضا پہلوی کو”عظیم اتحادی“کہا، اسی کو جب مفاد نہ رہا تو نکال باہر کیا۔

جنرل مشرف کو جب امریکہ کی ”ضرورت“ تھی، انہیں ترقی،احترام اور مراعات ملیں لیکن جب وہ”مفید“نہ رہے تو ان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے کیسز کھول دیے گئے۔ امریکا کی یہی تاریخ ہے، جس میں دوستی کا مطلب”مفاد“ اور عزت کا مطلب ”استعمال“ہوتا ہے۔

 اگر آج پاکستان کے فیلڈ مارشل کو وائٹ ہاوس میں پروٹوکول دیا جا رہا ہے تو اس کی قیمت کیا ہے؟کیا یہ افغان بارڈر پر نئے آپریشن کی صورت میں سامنے آئے گی؟کیا سی پیک کو سست کرنے کا اشارہ دیا جا چکا ہے؟کیا ایران سے فاصلہ،چین سے سردمہری یا روس سے اقتصادی رابطے محدود کرنے کی پالیسی پاکستان پر مسلط کی جا رہی ہے؟کیا امریکہ،اسرائیل اور انڈیا کے مفادات کی تکمیل کے لیے پاکستان کو ”نرم“بنانے کا منصوبہ ہے؟یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب پاکستانی قوم کو ضرور معلوم ہونا چاہیے۔

تاریخ کے اس ”نازک موڑ“پر اگر ہم  نے” ماضی کی غلطیاں“دہرائیں تو نقصان ناقابل تلافی ہو گا۔ پاکستان اس وقت غیر معمولی دباو میں ہے، سیاسی عدم استحکام، معیشت کی زبوں حالی، عدلیہ پر سوالات،میڈیا کی سنسر شپ اور عوامی بے چینی ہر گلی کوچے میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ ایسے میں امریکا کی جانب سے کسی”نرم مداخلت“یا ”مشفق مشورے“کے بہانے کسی بڑے فیصلے کی طرف دھکیلا جانا عین ممکن ہے۔

یہی وہ لمحہ ہے، جہاں قیادت کا اصل امتحان ہوتا ہے۔ اگر فیلڈ مارشل جنرل سید حافظ عاصم منیر اس موقع کو قومی وقار،خارجہ خود مختاری اور خطے میں توازن کی بنیاد پر استعمال کرتے ہیں،اگر وہ امریکا کو یہ واضح کر دیتے ہیں کہ پاکستان نہ ایران دشمنی میں شامل ہوگا،نہ اسرائیل سے کوئی سودے بازی کرے گا اور نہ چین سے دوستی قربان کرے گا تو یقیناً یہ ایک تاریخی موقع ہو گا لیکن اگر اس دورے کے نتیجے میں ہم کسی نئے”وار آن ٹیرر“،کسی نئی”معاشی وابستگی“یا کسی پرانے ”خفیہ معاہدے“کا حصہ بن گئے تو یہ ایک اور قومی سانحہ ہو گا۔

پاکستان کو اب یہ طے کرنا ہو گا کہ وہ تاریخ کے کس رخ پر کھڑا ہے۔ اگر ہم  نے سیکھنے سے انکار کیا تو پھر تاریخ ہمیں سکھانے سے کبھی نہیں رکے گی اور” سبق“ ہمیشہ ”قیمت“ لے کر ہی سکھایا جاتا ہے۔

Author

سینئر صحافی، کالم نگار اور بلاگر ہیں، پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔

خالد شہزاد فاروقی

خالد شہزاد فاروقی

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس