امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اسرائیل سے ایران پر حملے روکنے کی درخواست کرنا اس وقت بہت مشکل ہے کیونکہ تہران چند مہینوں میں جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے قریب پہنچ سکتا ہے، لیکن امریکہ ایسا ہونے نہیں دے گا۔
نیو جرسی میں ایئر فورس ون سے اترنے کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب ایک فریق جنگ میں برتری حاصل کر رہا ہو اور دوسرا پسپا ہو رہا ہو، تو ایسے میں مداخلت اور توازن پیدا کرنا پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ تاہم امریکہ ایران سے بات چیت کر رہا ہے اور صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اسرائیل اپنی حکمت عملی کے تحت آگے بڑھ رہا ہے، جبکہ ایران کو مسائل کا سامنا ہے، اس لیے ایسی صورتحال میں کسی فریق کو روکنے کی کوشش آسان نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس جنگ میں یورپ کی مداخلت یا مدد زیادہ مؤثر نہیں ہو سکتی، حالانکہ برطانیہ، جرمنی، فرانس اور دیگر یورپی سفارتکاروں نے ایرانی حکام سے جنیوا میں ملاقات کی ہے۔

ایک صحافی نے صدر ٹرمپ سے سوال کیا کہ اگر وہ ایران اور اسرائیل کے درمیان کوئی معاہدہ کرواتے ہیں اور اس کے تحت دونوں ممالک میں جوہری انسپکٹر تعینات کیے جاتے ہیں تو کیا وہ امن کا نوبل انعام جیت سکتے ہیں؟ اس پر ٹرمپ نے کہا کہ انہیں پہلے ہی روانڈا، کانگو، سربیا، کوسوو، اور سب سے بڑھ کر پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کروانے پر نوبل انعام ملنا چاہیے تھا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ایران کو سویلین مقاصد، جیسے بجلی کی پیداوار، کے لیے نیوکلیئر توانائی استعمال کرنے کی اجازت دینے کے حق میں ہیں، تو انہوں نے جواب دیا کہ ایران کے پاس دنیا کے بڑے تیل ذخائر موجود ہیں، اس لیے ان کے نیوکلیئر توانائی کے استعمال کی ضرورت پر شک کیا جا سکتا ہے۔ بعض ممالک کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ محدود سویلین استعمال کے لیے نیوکلیئر پروگرام رکھیں، لیکن ایران جیسے تیل سے مالا مال ملک کے لیے یہ دلیل کمزور معلوم ہوتی ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں، جب صحافی نے انہیں یاد دلایا کہ امریکی انٹیلیجنس کی ڈائریکٹر تولسی گیبارڈ نے کہا تھا کہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے 2003 میں جوہری پروگرام بند کر دیا تھا اور تب سے اسے بحال نہیں کیا، صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ اس بات سے متفق نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کے پاس جوہری مواد کی بڑی مقدار موجود ہے اور ممکن ہے کہ وہ چند ہفتوں یا مہینوں میں جوہری ہتھیار بنانے کے قابل ہو جائے، لیکن امریکہ ہر صورت میں اسے ایسا کرنے سے روکے گا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ دو ہفتوں کا الٹی میٹم اسی تناظر میں دیا گیا ہے اور اس کا مطلب ہے کہ آنے والے دنوں میں ایران پر حملے سے متعلق کوئی حتمی فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔