دنیا بھر میں ‘جڑواں بچوں کی پیدائش’ کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے اور یہ رجحان موجودہ دور میں اس قدر تیز ہوا ہے کہ اسے تاریخ کا سب سے بڑا ’پیدائش کا انقلاب‘ کہا جا رہا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب جڑواں بچوں کا پیدا ہونا ایک نادر بات سمجھی جاتی تھی مگر اب وہ دور گزر چکا ہے۔
ماہرین کی تازہ ترین رپورٹس کے مطابق جڑواں بچوں کی پیدائش کی شرح گزشتہ چند برسوں میں تین گنا بڑھ چکی ہے اور اب یہ رجحان تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق ہر 60 میں سے ایک حمل جڑواں بچوں کا ہوتا ہے اور اب یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ شرح مزید بڑھ سکتی ہے۔
جڑواں بچوں کی پیدائش میں اضافہ کی سب سے بڑی وجہ ’عمر‘ ہے۔
جی ہاں! وہ خواتین جو 35 سال یا اس سے زیادہ عمر کی ہوتی ہیں ان میں جڑواں بچوں کے پیدا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
سائنسی جوہات
اس سب کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ خواتین کے ہارمونز میں تبدیلیاں آتی ہیں جس کے نتیجے میں ایک سے زیادہ انڈے بیضہ دانی سے خارج ہوتے ہیں اور اس طرح جڑواں بچوں کی پیدائش کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔دنیا بھر میں آئی وری ایف کا استعمال بڑھتا جارہا ہے جو جڑواں بچوں کی پیدائش میں اضافے کا باعث بھی بن رہا ہے۔
سائنسی نقطہ نظر سے یہ رجحان ایک جزو ہےلیکن سماجی اور معاشی عوامل بھی اس میں شامل ہیں۔

دنیا بھر میں خواتین کا بچہ پیدا کرنے کا رجحان دیر سے ہو رہا ہے خواتین اب پہلے کی نسبت زیادہ عمر میں بچے پیدا کر رہی ہیں اور یہ عمل جڑواں بچوں کی پیدائش کی شرح میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔
ایک حالیہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ 2050 سے 2100 تک تمام ممالک میں جڑواں بچوں کی پیدائش کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو گا۔
اس سب کا بڑا سبب وہ سماجی تبدیلیاں ہیں جن کے تحت خواتین کا اپنے کیریئر اور ذاتی زندگی پر زیادہ توجہ دینے کا رجحان بڑھا ہے
جڑواں بچوں کی پیدائش میں اضافہ ایک قدرتی تبدیلی ہے، مگر اس کے ساتھ پیچیدگیاں اور ماؤں کی صحت پر اضافی بوجھ بھی آ سکتا ہے۔
اس پر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ محض خوش آئند نہیں بلکہ اس کے نتیجے میں صحت کی سہولتوں اور طبی طریقہ کار ضرورت ہوگی۔