کچھ جاہلوں کو ہر وقت اپنی ہی ریاست کو کوستے دیکھتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے۔ ان کی پسند کے خلاف کوئی حکومت آجائے تو یہ آئی آئی ایف کے پاس جا پہنچتے ہیں اور انہیں خط لکھتے ہیں کہ “خبردار پاکستان کو قرض نا دینا”۔یہ دن رات پاکستان کے ڈیفالٹ کرجانے کی دعائیں کرتے ہیں کہ کاش ایسا کوئی موقع ہاتھ آجائے تو ہم ناچ ناچ کر گھنگھرو توڑ سکیں اور ساتھ ہلکی ہلکی ہلکی آنچ پر یہ طعنے دے سکیں کہ “دیکھ لیں ہم نا کہتے تھے کہ ہمارے مہاتما کو نا ہٹائیں اب دیکھ لیا نا لاپرواہی کا نتیجہ”۔ پاکستان کے خلاف یہ دنیا بھر کے طاقتور ممالک میں احتجاج کرتے ہیں اور دنیا کو باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ “ہمارے ہاں انسانی حقوق نام کی کوئی شے باقی ہی نہیں بچی، آئیے اور ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کیجئے”۔
یہ کبھی آکسفورڈ یونیورسٹی میں چانسلرشپ کے لیے کاغذات نامزدگی لیے پہنچ جاتے ہیں اور پھر ناچ ناچ کر گھنگھرو توڑتے ہیں کہ”بس اب برطانیہ آئے گا اور اڈیالہ جیل سے اپنا چانسلر نکال کر لے جائے گا”۔ ہم جیسے کئی خیر خواہ سمجھا سمجھا کر تھک گئے کہ نادانوں! خود کو پہنچانو! ہماری مانو! مل بیٹھ کر یہاں کے مسائل کو یہیں نمٹالو ایسا کرنے سے دنیا بھر میں جگ ہنسائی کے سوا کچھ ہاتھ نا آئے گا۔
نونہالان انقلاب کے آگے سے طعنے سننے کو ملتے تھے، کہ “آپ کیا جانو! دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے” اور “ویسے بھی مغربی دنیا کو ہم سے بہتر کوئی نہیں جانتا” یہ کئی ماہ کروڑوں ڈالرز لیے دنیا بھر کے طاقتور لوگوں کو لابنگ کے لیے قائل کرتے رہے اور ٹویٹس کروا کر ابرارالحق کے گانے”عمران خان دے جلسے وچ اج میرا نچنے نوں جی کردا” لگا کر ہلکی ہلکی آنچ پر ڈانس کرتے رہے۔
امریکہ میں الیکشن آئے تو نیا شور اٹھایا کہ اب امریکہ میں صدر ٹرمپ آرہا ہے لہذا اب کوئی اس کے قہر سے بچ کر دکھائے۔ ٹرمپ کے الیکشن میں کمپین کرتے رہے اور روزانہ پاکستان میں ایک عدد نیا پیغام بھیجتے رہے کہ “ٹرمپ جدوں آئے گا تے لگ پتا جائے گا”۔ صدر ٹرمپ آیا تو اس کی پارٹی کے لوگوں سے جا جا کر روزانہ ٹویٹس کروائی جاتیں اور پھر روز رات کو بھنگڑے ڈال کر بتایا جاتا کہ بس اب اگلے ہی لمحے “جیل کا تالا ٹوٹے گا اور مہاتما ان کا چھوٹے گا” اربوں ڈالرز خرچ کرنے، ایک مظبوط ریاست جتنی سفارت کاری کرنے،برطانیہ سے لے کر امریکہ تک تحاریک چلانے اور امریکی صدر تک اپنا نوحہ پہنچانے کے باوجود جب کچھ حاصل نا ہوا تو بھارت کی جانب سے پاکستان پر ظالمانہ،سفاکانہ حملے پر ہی لڈیاں ڈالنا شروع کردیں۔ کہا گیا کہ “دیکھا لیڈر کو جیل میں ڈالنے کا نتیجہ” اگر لیڈر کے ساتھ زیادتی کرو گے تو آپکے ساتھ یہی کچھ ہوگا۔
پاکستان کے بھارت کو دیے گئے تاریخی جواب پر پوری دنیا عش عش کراٹھی لیکن کوئی ان کو منا کر تو دکھائے۔ یہ ایسا بدترین کلٹ بن چکا ہے کہ جس کے لیے اپنی ایک خواہش کے آگے سب جہاں قربان کرنا معمولی سی بات ہے۔ حالیہ اسرائیل اور ایران کے معاملے پر بھی لمحہ بہ لمحہ اپنی ہی ریاست کو کوسنے میں مصروف ہیں۔ان کی ریاست سے اس خاص خار اور تکلیف کی وجہ شاید اڈیالہ جیل ہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ رویہ کسی صورت بھی حوصلہ افزا رویہ ہے؟
ایران پر اسرائیل نے حملہ کیا تو پاکستان نے اسی وقت نا صرف مذمت کی بلکہ ایران کے لیے انکی اپنی سفارت کاری سے بھی آگے بڑھ کر سفارت کاری کی۔ اقوام متحدہ میں بھرپور آواز اٹھائی اور مشرق وسطی کے کئی ایسے ممالک کو بھی ایران کے لیے آواز اٹھانے پر قائل کیا کہ جن کے ایران سے اچھے تعلقات بھی نہیں۔ ایران نے سلامتی کونسل کے اجلاس کے لیے درخواست کی تو پاکستان،چین اور روس کی تائید کی وجہ سے یہ اجلاس بلایا جا سکا۔ پاکستان کھل کر ہر معاملے میں ایرانی موقف کو دنیا بھر کے آگے پیش کررہا ہے اور مشرق وسطی اور دیگر کئی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے انہیں ایران کی سفارتی مدد پر قائل کررہا ہے۔
ایران پر اسرائیلی حملے کے بعد سب سے بڑا خطرہ امریکہ کا ایران پر حملہ تھا۔پاکستان نے اس حملے کو روکنے کے لیے ہرممکن کوشش کی اور امریکی صدر کو نوبل امن ایوارڈ کے لیے نامزد کرنا بھی درحقیقت اس کے ہاتھ روکنے کے کوشش تھی کہ وہ شاید نوبل امن ایوارڈ کے لالچ میں اس جنگ میں کودنے سے باز رہے۔ ٹرمپ کو عمران خان کے معاملے میں کودنے سے بھی باز رکھنے کے لیے ایسا تجربہ کیا جاچکا تھا جو کامیاب بھی ہوا۔ ٹرمپ کے انوسٹر ایلون مسک کی کمپنی سٹار لنک کے لیے این او سی اور ٹرمپ کی کرپٹو کرنسی کے لیے کونسل کا قیام واضح مثالیں ہیں۔ پاک بھارت جنگ میں بھارت کی طرف سے پیش کردہ جنگ بندی کی درخواست کو قبول کرکے ٹرمپ کو ثالث بنانے کا فیصلہ بھی پاکستان کے لیے بہت مفید ثابت ہوا جس کے بعد بھارت ابھی تک اس صورتحال کو ہینڈل نہیں کرپارہا۔
سفارتی میدان میں لازمی نہیں کہ ہر چال کامیاب ہی ہو۔ کچھ کاوشیں ناکام بھی ہوجایا کرتی ہیں۔ صدر ٹرمپ سے فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ملاقات کے بعد ٹرمپ کا دو ہفتے ایران اسرائیل جنگ میں کودنے سے باز رہنے کا بیان پوری دنیا کے سامنے ہے۔
لیکن جب امریکہ نے اپنے وعدوں کا پاس نا رکھتے ہوئے ایران پر اچانک حملہ کردیا تو پاکستان نے نا صرف اس کی کھل کر مذمت کی بلکہ امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات ہونے کے باوجود ایران کے حق میں پوری دنیا کے سامنے بات کررہا ہے۔ پاکستان نے ایران پر امریکی حملے کو جارحیت قرار دیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ پاکستان اس کے علاوہ اور کیا کرسکتا ہے؟
ابھی کل بھارت نے پاکستان پر جب حملہ کیا تھا تو ایران نے تو نہتے پاکستانیوں پر حملے کی مذمت تک جاری نا کی تھی۔ دونوں ملکوں کو تحمل کا مشورہ اور ثالثی کی پیشکش کرکے دونوں کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھا تھا۔جس روز بھارت نے پاکستان کی خودمختاری پر حملہ کیا اور نہتے معصوم شہریوں کو نشانہ بنا کر بدترین جنگی جرم کا ارتکاب کیا انہی دنوں میں ایران بھارت کے ساتھ معاہدے کررہا تھا۔ پاکستان نے نا ایسا کوئی گلہ کیا اور نا اس جائز ناراضگی کو سامنے رکھ کر ایران پر آئے مشکل وقت پر اس سے منہ موڑا۔
جو نونہالان انقلاب جنگ عظیم دوم کے بعد کے بندوبستی نظام سے واقف نہیں اور نا وہ کسی سفارتی اصول اور خارجہ امور کو جانتے ہیں ان کا جذبات کی بنیاد پر واویلا مچانے پر کوئی انہیں کیا سمجھائے ؟
جو اڈیالہ کا دکھ اس خطرناک جنگ میں اپنی ریاست کو ملامت کرکے کم کرنا چاہتے ہیں ان سے کیا شکوہ؟
کیوں کہ پنجابی کا ایک مقولہ ہے نا ” پیڑاں ہور تے،پھکیاں ہور ” نونہالان انقلاب کو تکلیف کچھ اور ہے اور نکال کہیں اور رہے ہیں۔ یہ گریہ زاری ایران کی محبت میں ہوتی تو خلوص قرار پاتی لیکن یہ کسی اور تکلیف کا بہانے بہانے سے اظہار ہے اس لیے یہ تعصب اور بغض کے سوا کچھ بھی نہیں۔
نوٹ : یہ تحریر بلاگر راحیل معاویہ کی فیس بک وال سے لی گئی ہے، ادارے کا رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ ایڈیٹر