Follw Us on:

انڈیا: جعلی تیل سے بال گرنے کا علاج؟ سنگرور میں سستا علاج مہنگا پڑ گیا، 200 سے زائد افراد متاثر

مادھو لعل
مادھو لعل
Hairfall ii
اگر بروقت علاج نہ کیا جاتا تو نتائج سنگین ہو سکتے تھے۔ (فوٹو: فائل)

انڈین پنجاب کے ضلع سنگرور میں ایک جعلی ہیئر آئل کے ذریعے بال گرنے کا علاج کروانے والے افراد کو اس وقت شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جب اس تیل کے استعمال کے بعد ان کی آنکھوں اور جلد میں جلن اور تکلیف شروع ہو گئی۔ متعدد افراد کو اسپتالوں کا رخ کرنا پڑا جب کہ ماہرین نے تیل کو انتہائی مضر صحت قرار دیا ہے۔

انڈین نجی خبررساں ادارے دی کوئنٹ کے مطابق یہ واقعہ مارچ 2025 میں پیش آیا، جب سوشل میڈیا پر ایک خاص تیل کو بالوں کے گرنے کا “یقینی علاج” قرار دیتے ہوئے بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی۔ اس تیل کے دعوے نہ صرف سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے بلکہ مقامی شخصیات اور سلیبریٹیز نے بھی اس کی حمایت کی۔ ہزاروں افراد نے اس کیمپ میں شرکت کی۔

کیمپ میں تیل لگوانے کے بعد متعدد افراد نے آنکھوں میں شدید جلن اور جلد پر خارش کی شکایت کی، جو وقت کے ساتھ ناقابل برداشت ہو گئی۔

مقامی نجی کلینک چلانے والے ڈاکٹر ویبھوو متل نے بتایاہے کہ چند گھنٹوں کے اندر پورے شہر میں افراتفری پھیل گئی۔ سب سے بڑا مسئلہ شدید درد اور جلن تھی۔ اگر بروقت علاج نہ کیا جاتا تو نتائج سنگین ہو سکتے تھے۔

تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ اس تیل کی تشہیر فیس بک پیج ’9X0 اسٹائل‘ کے ذریعے کی گئی، جو اس قسم کے جعلی کیمپ باقاعدگی سے منعقد کرتا رہا ہے۔ دی کوئنٹ کی فیکٹ چیکنگ ٹیم “ویب کوف” نے سنگرور پہنچ کر اس کی تصدیق کی۔

Hairfall
صحت سے متعلق جھوٹی معلومات نہ صرف خطرناک ہو سکتی ہیں۔ (فوٹو: ڈان)

میڈیا میں خبروں کے بعد متاثرہ افراد کو سماجی طور پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا، جس کے باعث زیادہ تر لوگ کیمرے پر بات کرنے سے گریزاں ہیں۔

سنگرور انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ کیمپ بغیر اجازت منعقد کیا گیا تھا۔ پولیس نے تجندر پال سنگھ اور امن دیپ سنگھ کے خلاف جعلی اور گمراہ کن دواؤں کی تشہیر کے تحت ایف آئی آر درج کی۔

دو ماہ بعد پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ نے ملزم امن دیپ سنگھ کی ضمانت کی درخواست یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ یہ معاملہ عوامی صحت سے متعلق ہے اور نہایت سنگین نوعیت کا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ تیل میں موجود اجزاء اتنے خطرناک تھے کہ انھیں کبھی بھی جلد یا بالوں پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ انڈیا میں بالوں کے گرنے سے متعلق مصنوعات کی مارکیٹ 2024 میں 282.41 ملین ڈالر تک جا پہنچی ہے، لیکن ان میں سے کئی مصنوعات سائنسی تحقیق سے محروم ہیں۔

عوامی حلقوں میں یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ جب کیمپ کی سوشل میڈیا پر کھلے عام تشہیر ہو رہی تھی، تب کارروائی کیوں نہ کی گئی؟ کیا انتظامیہ کو اتنے بڑے اجتماع کی خبر ہی نہ تھی؟ یا پھر سوشل میڈیا پر جعلی دعووں کی روک تھام کے لیے ہمارے پاس کوئی مؤثر نظام ہی موجود نہیں؟

واضح رہے کہ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ صحت سے متعلق جھوٹی معلومات نہ صرف خطرناک ہو سکتی ہیں بلکہ بعض اوقات جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔

Author

مادھو لعل

مادھو لعل

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس