پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کی نجکاری کے لیے حکومت کی نئی کوشش میں سرمایہ کاروں کی دلچسپی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ نجکاری کمیشن کے مطابق اس بار پانچ مختلف پارٹیوں نے پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے اپنے اسٹیٹمنٹ آف کوالیفکیشن جمع کروا دیے ہیں۔
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب گذشتہ سال حکومت کی پہلی نجکاری کوشش ناکام رہی تھی۔ اُس وقت صرف ایک پارٹی نے دس ارب روپے کی بولی دی تھی، جبکہ حکومت نے کم از کم قیمت 85 ارب روپے مقرر کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ’چار فلیٹس، چار گاڑیاں اور ذاتی ملازمین‘، کراچی میں کام کرنے والی ماسی کے خلاف پولیس کی تفتیش
حالیہ کوشش میں دلچسپی ظاہر کرنے والی کمپنیوں میں لکی سیمنٹ، حب پاور، کوہاٹ سیمنٹ اور میٹرو وینچرز پر مشتمل کنسورشیم شامل ہے۔ اس کے علاوہ عارف حبیب گروپ، فاطمہ فرٹیلائزر، سٹی اسکول، لیک سٹی ہولڈنگز، ایئر بلیو، فوجی فرٹیلائزر، سیرین ایئر، بحریہ فاؤنڈیشن اور دیگر نے بھی دلچسپی ظاہر کی ہے۔

نجکاری کمیشن کے ترجمان ڈاکٹر احسن اسحاق کے مطابق, یورپی روٹس کی بحالی اور برطانیہ کے لیے پروازوں کی ممکنہ واپسی اس عمل کو زیادہ پرکشش بناتی ہے۔ ان کے بقول، ملکی معیشت میں بہتری آنے سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے۔
نجکاری کمیشن کے سابق چیئرمین محمد زبیر نے بھی کہا ہے کہ اب کی بار حالات نسبتاً بہتر ہیں اور پی آئی اے کو فروخت کرنے کے امکانات روشن ہیں۔
تاہم ایوی ایشن امور کے ماہر افسر ملک نے کہا کہ یورپی روٹس کی بحالی سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ پی آئی اے پہلے بھی ان روٹس پر خسارے میں تھی اور وہاں مقابلہ بہت سخت ہے۔ ان کے مطابق اصل فرق ان اقدامات سے پڑا ہے جن میں حکومت نے ٹیکس معاملات واضح کیے ہیں اور نئے طیارے لیز پر لینے میں سہولت دی ہے۔

افسر ملک کے مطابق، اس بار حکومت پی آئی اے کی مکمل ملکیت منتقل کرنے جا رہی ہے، جبکہ پچھلی بار 40 فیصد حصہ اپنے پاس رکھنا چاہتی تھی۔
پی آئی اے کی نجکاری کے امکانات پر بات کرتے ہوئے محمد زبیر نے کہا کہ حکومت کا مقصد صرف زیادہ قیمت حاصل کرنا نہیں ہونا چاہیے بلکہ قومی ایئر لائن کے جاری خسارے کو روکنا زیادہ اہم ہے۔ ان کے مطابق، اگر کوئی سرکاری ادارہ پی آئی اے خریدتا ہے اور نقصان جاری رہتا ہے تو وہ ریاست کا ہی نقصان ہو گا۔
افسر ملک نے تنبیہ کی کہ کچھ دعوؤں، مثلاً پی آئی اے کی جانب سے آپریٹنگ منافع حاصل کرنے کے دعوے کی شفافیت، ابھی تک واضح نہیں ہے۔ اس رپورٹ کو ویب سائٹ پر شائع نہیں کیا گیا، اور ممکنہ خریدار اس پر سوال اٹھا سکتے ہیں۔
نجکاری کمیشن نے تاحال بولی کھولنے کی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا، لیکن عام طور پر یہ عمل دو سے تین ماہ میں مکمل ہوتا ہے۔