نیو یارک سٹی کے میئر کے انتخاب کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کے پرائمری میں ریاستی اسمبلی کے رکن ظہران ممدانی نے کامیابی حاصل کر لی ہے۔ سابق گورنر اینڈریو کومو نے شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج کی رات ان کی رات ہے۔ اس کامیابی کے بعد ظہران ممدانی نومبر میں ہونے والے عام انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کے باضابطہ امیدوار ہوں گے۔
اگر ظہران ممدانی عام انتخابات میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ نیویارک جیسے بڑے شہر کے پہلے مسلم اور جنوبی ایشیائی نژاد میئر بن جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: ’چار فلیٹس، چار گاڑیاں اور ذاتی ملازمین‘، کراچی میں کام کرنے والی ماسی کے خلاف پولیس کی تفتیش
ان کی انتخابی مہم کا نعرہ روٹی، کپڑا اور مکان سوشل میڈیا پر خاصا مقبول ہوا ہے۔ انھوں نے مہنگے شہر میں سستی رہائش، مفت بس سروس اور بچوں کی نگہداشت جیسی سہولیات فراہم کرنے کے وعدے کیے ہیں۔

ظہران ممدانی 1991 میں یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمود ممدانی ایک معروف ماہرِ سیاسیات ہیں جبکہ والدہ میرا نائر معروف فلم ساز ہیں۔ وہ کم عمری میں نیو یارک منتقل ہوئے اور برونکس میں پرورش پائی۔ انہوں نے افریقن اسٹڈیز میں گریجویشن کیا اور بعد ازاں گھروں کی ضبطگی سے بچاؤ کے لیے مشاورتی خدمات انجام دیں۔
2020 میں وہ نیویارک کی ریاستی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے اور پہلے جنوبی ایشیائی مرد، پہلے یوگنڈا نژاد اور تیسرے مسلمان رکن بنے۔ ان کی انتخابی مہم کو ترقی پسند طبقات، تارکین وطن اور نوجوان ووٹرز کی حمایت حاصل ہے۔

ان کے حریف اینڈریو کومو نیو یارک کے سابق گورنر ہیں جنہوں نے جنسی ہراسانی کے الزامات کے بعد 2021 میں استعفیٰ دیا تھا۔ ابتدائی مرحلے میں کومو کو برتری حاصل تھی، تاہم رینکڈ چوائس ووٹنگ کے تحت ظہران ممدانی نے انہیں پیچھے چھوڑ دیا۔
ظہران کی انتخابی مہم کے ترجمان کے مطابق، یہ نیویارک کی تاریخ کی سب سے بڑی فیلڈ مہم ہے جس میں 40,000 رضاکاروں نے حصہ لیا اور ایک ملین سے زائد گھرانوں سے رابطہ کیا گیا۔ ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کے وعدے مالی طور پر قابلِ عمل نہیں، لیکن ممدانی کا مؤقف ہے کہ یہ وقت عام شہریوں کو ترجیح دینے کا ہے۔

یہ بھی واضح رہے کہ ظہران کی انتخابی مہم کو کانگریس کی رکن الگزینڈریا اوکاسیو کورتیز، سینیٹر برنی سینڈرز، اور ورکنگ فیملیز پارٹی کی حمایت حاصل ہے۔ دوسری طرف اینڈریو کومو کو ریئل اسٹیٹ کمپنیوں، پولیس یونینز اور سابق میئر مائیکل بلومبرگ کی حمایت حاصل تھی۔
نومبر میں ہونے والے عام انتخابات میں ظہران کی کامیابی کا انحصار نوجوان اور تارکین وطن ووٹروں کی شرکت پر ہوگا۔ اگر وہ کامیاب ہو جاتے ہیں تو نیویارک کی سیاست میں ایک تاریخی تبدیلی واقع ہو سکتی ہے