کبھی کبھار ایسا لگتا ہے جیسے یہ ملک،یہ مٹی، یہ آسمان، یہ دھوپ، سب کچھ کسی اور کا ہے۔ جیسے عام آدمی اس سرزمین کا وہ بدقسمت باسی ہے جس کی سانسیں بھی اب قرض کی ضمانت پر چل رہی ہیں۔
جون کی یہ دوپہریں، جب آسمان آگ برساتا ہے اور زمین تانبے کی پلیٹ بن جاتی ہے، جب ہوا تھم سی جاتی ہے اور فضا میں صرف بجلی کے پنکھے کی بازگشت رہ جاتی ہے۔ ایسے میں ایک عام پاکستانی اپنے بجلی کے بل کی طرف دیکھتا ہے، میٹر کی دوڑتی ہوئی سوئیوں کو گھورتا ہے، اپنے پسینے میں شرابور بچوں کو دیکھتا ہے اور پھر ٹھنڈی سانس لے کر چھت کی طرف منہ کر کے بے اختیار کہتا ہے، یا اللہ حکمران طبقہ تو بڑا ہی ظالم اور بے رحم ہے، تو ہی اپنی رحمت کر دے۔
یہ 200 یونٹ کا عذاب جو حکومت نے عوام پر مسلط کیا ہے، ایک ایسا طوق ہے جو ان کے گلے میں زنجیر کی صورت جھول رہا ہے۔ اس ملک کا محنت کش، وہ رکشہ ڈرائیور، وہ سبزی فروش، وہ مدرسے کا استاد، وہ کلرک، وہ چھوٹا کاروباری، جس کی تنخواہ مہینے کے وسط میں ہی دم توڑ دیتی ہے، اسے کہا جاتا ہے کہ اگر وہ 200 یونٹ سے زیادہ بجلی استعمال کرے گا تو سبسڈی ختم، قیمت دگنی اور ٹیکس سہ گنا، گویا اب بجلی بھی صرف اشرافیہ کا حق ہے؟
کیا یہ وطن صرف ان کے لیے ہے جن کے لیے ایئرکنڈیشنڈ دفاتر ہیں، جن کے بنگلوں کی چھتوں پر سولر پینلز جگمگا رہے ہیں، جن کے لانز میں جھولے جھولتے بچے گرمی کا مفہوم ہی نہیں جانتے؟ کیا ان بے حال مزدوروں کا کوئی حق نہیں جنہوں نے اس وطن کو اپنے خون، پسینے اور خوابوں سے سینچا ہے؟
بجلی کا یہ میٹر جب تیز دوڑتا ہے تو کسی عام آدمی کا دل بیٹھنے لگتا ہے۔ ہر یونٹ کی گنتی کسی تازیانے کی مانند جسم پر برس رہی ہوتی ہے۔ 35 ہزار روپے مہینہ کمانے والا ایک شخص جب 15 ہزار روپے کا بل ہاتھ میں تھامتا ہے تو اسے اپنا وجود ہی بے معنی لگنے لگتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ وہ گھر میں روکھی سوکھی روٹی دے یا پنکھا چلائے؟ دوا خریدے یا بچوں کی فیس جمع کروائے؟ یہ حکومت آخر اس سے کیا چاہتی ہے؟ کیا ہم لوگ فقط ٹیکس دینے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں؟ کیا ہماری زندگی کی کوئی قیمت نہیں؟
بے روزگاری کی قینچی روز معصوم امیدوں کو کاٹ رہی ہے۔ مہنگائی کے بھڑکتے شعلے اب گھروں کی دیواروں تک آ پہنچے ہیں لیکن ایوان اقتدار میں بیٹھے لوگوں کو شاید ان سسکیوں کی زبان ہی نہیں آتی۔ ان کے کان تو صرف ڈالر کی کھنک اور اپنے من پسند اینکرز کی چاپلوسیوں کے عادی ہو چکے ہیں۔ وہ عوامی ردعمل کا تجزیہ کرتے ہیں، آنکھوں میں آنسو دیکھنے کے بجائے صرف گراف اور ڈیٹا پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے لیے غریب صرف ایک فگر ہے، ووٹر لسٹ میں درج ایک بے نام سا وجود ہیں۔
یہ سبسڈی کا فلسفہ اب سمجھ سے باہر ہے۔ اشرافیہ کو ہر چیز پر سبسڈی ہے، وہ بجلی بھی مفت لیتے ہیں، گیس بھی، پٹرول بھی، سرکاری گاڑیاں، مفت بیرون ملک دورے، پروٹوکول، علاج، سیر و تفریح، سب کچھ قومی خزانے سے اور جب بات آتی ہے عام آدمی کی تو کہا جاتا ہے کہ ”ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے، قربانی دینی ہو گی“۔ قربانی؟ کون سی قربانی؟ ایک مزدور جس نے 40 سال اپنی ہڈیاں گھسا کر اس نظام کا بوجھ اٹھایا، وہ آج اپنی بوڑھی آنکھوں سے اپنے بچوں کو گرمی میں تڑپتا دیکھتا ہے اور پھر اسے کہا جاتا ہے، ”200 یونٹ کی حد عبور نہ کرو“ جیسے وہ چور ہو، مجرم ہو یا کسی جرم کی سزا بھگت رہا ہو۔
دوسری جانب وہ لوگ جو دن رات ظلم کی نئی داستانیں رقم کرتے ہیں، جنہوں نے ملک کی معیشت کو یرغمال بنایا، جن کی کوٹھیاں رات دن بجلی سے جگمگاتی ہیں، جن کی گاڑیاں ایندھن نگلتی ہیں، وہی لوگ بجلی کی قیمت کا تعین بھی کرتے ہیں، سبسڈی کے اصول بھی بناتے ہیں اور انہی کے بچے بیرون ملک عیش کرتے ہیں۔
انصاف تو یہاں وہ دکان ہے جو صرف امیروں کے لیے کھلتی ہے۔ یہ کیسا ملک ہے جہاں کابینہ کے ارکان کے گھروں پر لاکھوں کے بل بھی معاف کر دیے جاتے ہیں اور جہاں ایک غریب شہری کے بجلی کاٹ دی جاتی ہے، اگر اس سے پانچ سو روپے کا بقایا بھی رہ جائے؟
ذرا رکیں، سوچیں اور خود سے پوچھیں، کیا یہ ریاست واقعی ماں کے جیسی ہے؟ کیا یہ وہی ریاست ہے جس کا وعدہ قائد اعظم نے کیا تھا؟ یا یہ محض ایک ”اشرافی ریاست“ بن چکی ہے، جہاں طاقتور محفوظ اور عام آدمی ہمیشہ قصوروار ہوتا ہے؟ عام آدمی اب تھک چکا ہے، وہ فقط احتجاج نہیں کر رہا، وہ فریاد کر رہا ہے، وہ دیوار سے لگا دیا گیا ہے، وہ ہر ماہ بل جمع کروانے کے بعد بچوں کو تسلی دیتا ہے کہ ”بس اگلا مہینہ بہتر ہو گا“ مگر اگلا مہینہ جب آتا ہے تو مزید مہنگائی اور ناامیدی کی چادر تنی ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اب کیا باقی رہ گیا ہے؟ بجلی مہنگی، چینی مہنگی، آٹا مہنگا، دال مہنگی، پٹرول مہنگا، دوائی مہنگی، تعلیم مہنگی اور زندگی؟ وہ تو جیسے ناپید ہو گئی ہو۔ مگر حکمران طبقہ؟ وہ تو اب بھی نت نئے منصوبے بنا رہا ہے، اب بھی غیر ملکی دورے جاری ہیں، اب بھی فائیو سٹار ہوٹلز میں کانفرنسز ہو رہی ہیں، اب بھی وزراء کے پروٹوکول رکنے کا نام نہیں لیتے، کیا انہیں ایک بار بھی اس قوم کا دکھ محسوس ہوا ہے؟ کیا انہوں نے کبھی ننگے پاوں چلتے ہوئے کسی بچے کو دیکھا ہے جو دوپہر کے وقت ایک جگ پانی کی تلاش میں بھٹک رہا ہو؟ کیا یہ سب انہیں نظر نہیں آتا؟ یا انہوں نے دیکھنا چھوڑ دیا ہے؟
اس ملک کا بوجھ اب صرف غریب کے کندھوں پر ہے۔۔ غریب کا بچہ فوج میں بھرتی ہوتا ہے، پولیس میں جاتا ہے، وکیل بنتا ہے، استاد بنتا ہے، مریض بنتا ہے اور بالآخر قبر کا رزق بن جاتا ہے۔ اس کی ماں دوپٹہ بیچ کر بچوں کو سکول بھیجتی ہے، اس کی بیوی زیور گروی رکھ کر گیس کا بل ادا کرتی ہے، اس کی بہن جہیز کی فہرست دیکھ کر روتی ہے اور پھر جب بجلی کا بل آتا ہے تو سب خواب جل کر راکھ ہو جاتے ہیں۔
ایسی ریاستیں کب تک چلتی ہیں؟ ایسی ناانصافیاں آخر کب تک برداشت کی جا سکتی ہیں؟ یہ آگ جو گھروں کے اندر جل رہی ہے، اگر ایوانوں تک پہنچ گئی تو پھر نہ بندوق کام آئے گی نہ باڈی گارڈز۔
میری یہ تحریر صرف احتجاج نہیں، یہ ایک نوحہ ہے، ایک ماتم ہے اس غریب کے حق میں جو اس سرزمین کا اصل مالک ہے مگر ہر دن اس سے جینے کا حق چھینا جا رہا ہے۔ ہم سوال کرتے ہیں کہ وہ ادارے کہاں ہیں جن کا کام عوام کی فلاح ہے؟ وہ عدالتیں کہاں ہیں جن کے دروازے ہمیشہ کھلے ہوتے ہیں؟ وہ میڈیا کہاں ہے جو چیختا تھا جب کسی وڈیرے کا کتا بیمار ہو جاتا تھا؟ کیا غریب انسان نہیں؟ کیا اس کے بچے بچے نہیں؟ کیا اسے جینے کا حق نہیں؟
ہم مطالبہ نہیں کر رہے، ہم التجا کر رہے ہیں، خدارا 200 یونٹ کی اس قید کو ختم کریں، یہ وہ ظلم ہے جس نے کروڑوں پاکستانیوں کو زندہ درگور کر دیا ہے، اگر آپ بجلی سستی نہیں کر سکتے تو کم از کم اس عوام دشمن پالیسی کو ختم کریں جو ایک عام آدمی کو ہر ماہ ذلت کی کھائی میں دھکیلتی ہے۔
یاد رکھئے! حکومتیں عوام کی بددعاوں سے گرتی ہیں، اگر آج بھی آپ نہ جاگے تو تاریخ آپ کو معاف نہیں کرے گی، وہ دن دور نہیں جب اس ملک کا ہر مزدور، ہر ماں، ہر نوجوان صرف اپنے بل، اپنے آہیں اور اپنے خواب لے کر سڑکوں پر ہو گا، تب نہ کوئی بلٹ پروف گاڑی کام آئے گی، نہ کوئی بیوروکریسی، نہ کوئی جعلی اعداد و شمار۔ تب صرف ایک آواز ہو گی، ظلم کے خلاف، ناانصافی کے خلاف، محرومی کے خلاف، اور وہ آواز ایک طوفان بن جائے گی۔ جاگ جائیے، اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔
نوٹ : یہ تحریر لکھاری کی ذاتی رائے پر مبنی ہے اور ادارے کا رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ ایڈیٹر
Author
-
سینئر صحافی، کالم نگار اور بلاگر ہیں، پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔
View all posts