Follw Us on:

ایران اسرائیل جنگ بندی: کیا پاکستانی عوام کو مہنگائی سے نجات ملے گی؟

زین اختر
زین اختر
Lead today
ایران اسرائیل جنگ بندی: کیا پاکستانی عوام کو مہنگائی سے نجات ملے گی؟( فائل فوٹو)

24 جون 2025 کو ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا اعلان ہوا۔ امن کا ایک نیا موقع پیدا ہوا، امن کی امیدیں جاگنے لگیں لیکن پاکستانی عوام کیلئے مہنگائی میں کمی کا سوال اب بھی اہم ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں کی 12 روزہ کشیدہ جنگ میں ایران کی نیوکلیئر تنصیبات پر حملے، میزائلوں کا تبادلہ اور امریکا کے کردار نے تیل، معیشت اور عالمی منڈیوں پر نمایاں اثرات مرتب کیے ہیں۔ پاکستان جیسی معیشت ان تبدیلیوں کی نازک رفتار کو محسوس کرتی رہی۔

جنگ کے دوران مشرق وسطیٰ میں تیل کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح تک جاپہنچی۔ ایرانی بیانات سے لیکر آبنائے ہرموز کی بندش کی خبروں کے تناظر میں برنٹ کرڈ تقریباً 58 ڈالر فی بیرل تک بڑھی۔ ان کی وجہ سے عالمی افراط زر بڑھنے کا خدشہ تھا۔ تاہم جنگ بندی کے بعد وہی تیل کی قیمتیں واپس نیچے آ گئیں، تقریباً 67 ڈالر فی بیرل پر رکیں، جس سے پاکستانی مارکیٹ میں بڑی ریلیف کی امید جل کر ابھری۔ مارکیٹوں میں یہ ردعمل فوری تھا، کیونکہ پاکستان کا تیل درآمدی ہے اور قیمتوں میں اتار چڑھاؤ براہ راست عوام کی جیب پر اثر انداز ہوتا ہے۔

پاکستان اسٹاک ایکسچینج (KSE-100) بھی جنگ کے آغاز پر شدید دباؤ کا شکار ہوا، لیکن جنگ بندی کے اعلان کے ساتھ ہی مارکیٹ میں استحکام آیا۔ سینئر ماہرین نے ذکر کیا کہ یہ حکمتِ عملی وقتی پھونک نہیں بلکہ بریفنگ ریلیف ہے اور مستقل استحکام صبر، حکومتی ریفارمز اور گلوبل سپلائی چینز کی بحالی پر منحصر ہے۔

Image

اب یہ سوال اہم ہے کہ آیا عوامی سطح پر تیل اور بجلی کے نرخ کم ہوں گے یا یہ صرف عارضی ثمرات ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ عالمی بحرانوں کے حل سے کچھ عرصے کے لیے گیس اور خوراک کی قیمتیں مستحکم ہو سکتی ہیں، مگر سیاسی و اقتصادی ڈھانچے میں مستقل اصلاحات ضروری ہیں۔ موجودہ حکومت سے توقع یہی ہے کہ وہ اس اظہارِ امن سے فائدہ اٹھا کر ٹیکسز، سبسڈیز اور درآمدی پالیسیوں میں توازن لائے گی۔

پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پٹرولیم سیکٹر کے ماہر عتیق الرحمن نے کہا کہ “عالمی تیل کی قیمتوں کا فوری کم ہونا ہمارے لیے یقینی طور پر آسانی ہے، لیکن اس کا حقیقی اثر تبھی ہوگا جب حکومت یہ فائدہ عوام تک پہنچائے۔ دوسری صورت میں یہ صرف مارکیٹ کا جھلک ہے، حقیقی نجات نہیں”۔ ان کے مطابق پاکستان کو برقرار معاشی لائحۂ عمل کے ساتھ ایمرجنسی سبسڈی پر غور کرنا ہوگا۔

پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کسان رہنما زینب بشیر نے بتایا کہ “زرعی شعبے میں بجلی اور ایندھن کے نرخ بڑھانے سے کسانوں کا بوجھ بڑھتا ہے، اور اس سے خوراک کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اگر جنگ بندی کے بعد سبسڈیز برقرار رہیں تو گیس اور ڈیزل کی قیمتیں زرعی لاگت میں کمی لا سکتی ہیں، ورنہ مہنگائی کی لہر جاری رہے گی”۔ ان کا مؤقف ہے کہ حکومت کو کسانوں کو خصوصی ریلیف پیکیج دینا چاہئے۔

پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے اقتصادی تجزیہ کار فہد خان کہتے ہیں کہ “افراطِ زر پر قابو پانے کیلئے مرکزی بینک کو شرح سود کے علاوہ مالیاتی پالیسیوں پر بھی غور کرنا ہوگا۔ تجربہ بتاتا ہے کہ صرف عالمی قیمتوں کا کم ہونا کافی نہیں، ملکی محصولات اور بیرونی قرضوں کا دباؤ بھی عوام پر اضافی بوجھ ڈال سکتا ہے۔ مستقل نجات کیلئے معاشی ڈھانچوں میں اصلاح ناگزیر ہے”۔

Poor pak child
غذائی قلت کے شکار بچے بڑے ہو کر جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور رہتے ہیں۔ (فوٹو: گوگل)

اس وقت پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ جنگ بندی کا اثر عوام تک کیسے پہنچے۔ اگر تیل، گیس اور بجلی مہنگی رہیں یا سبسڈی سکڑ جائیں، تو عوام کو فرق محسوس نہیں ہوگا۔ دوسری جانب اگر حکومتی اقدامات موثر رہیں، تو چند ماہ کے اندر ہی کرنسی کی قدر، اسٹاک مارکیٹ، اور اشیا کی قیمتوں میں بہتری دیکھی جا سکتی ہے۔

آنے والے ہفتوں میں عالمی تیل کی جانب سے کسی قسم کا خلل نہ ہو، آبنائے ہرموز میں ٹریفک جاری رہے، تو پاکستانی افراطِ زر عارضی حد تک قابو میں رہ سکتی ہے۔ مگر یہ عارضی سکون ہمارے نظام کا ٹیسٹ ہوگا کہ کیا ہم مستقل بہتری کے لئے سیاسی پختگی، مالیاتی نظم اور عوامی فلاح کو ترجیح دیں گے؟ یا پھر عالمی ساز و سامان پر جھولتے رہیں گے؟

یہ بھی پڑھیں:ایران پر امریکی حملہ، کیا اگلا نشانہ پاکستان ہے؟

ایسا لگتا ہے کہ جنگ بندی نے ایک چھوٹی سی کھڑکی کھول دی ہے، جہاں سے پاکستان کو اپنی معاشی حکمتِ عملی کی درست سمت کا آغاز کرنا ہے۔ عوام کو امید ہے، مگر انہیں حقیقی احساس تب ملے گا جب پٹرول کی قیمتیں نیچے آئیں، بجلی مہنگ نہیں ہوگی، اور روزمرہ اشیا قیمتوں میں مستحکم رہیں گی۔ اگر یہ سب ممکن ہو سکا تو پاکستان واقعی بحرانوں سے نکل کر ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:ترکیہ میں اسرائیل کے خلاف مسلم اور پاکستانی نوجوانوں کا کیا کردار رہا؟

اسی لیے اب ہمارا سیاسی، معاشی، اور حکومتی کردار ایک آزمائش پر ہے۔ جنگ بندی نے موقع فراہم کیا ہے، اب ضروری ہے کہ پاکستان عوامی سطح پر نجات کا حقیقی راستہ اپنائے، نہ کہ صرف عالمی اعداد و شمار کی روشنی میں خانہ جنگی کا احساس پھیلائے۔ امن کا حقیقی ثمر معاشی استحکام، راشن کی قیمتوں، چھوٹے کاروبار، اور روزمرہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے آراموں میں عوام کو محسوس ہوتا ہے۔ پاکستانی عوام کے لیے یہ رحمت چاند کی روشنی جیسی ہے۔ اگر اسے سمجھداری سے استعمال کیا جائے تو یہ خاموش مگر اہم ثابت ہو سکتی ہے

Author

زین اختر

زین اختر

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس