پاکستان ریلوے میں رواں سال کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران مجموعی طور پر پنتالیس ٹرین حادثات رپورٹ ہوئے، جس سے قومی ریلوے نظام کی سلامتی اور بنیادی ڈھانچے سے متعلق سنگین مسائل اجاگر ہوئے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، یکم جنوری سے 15 جون 2025 تک پیش آنے والے حادثات میں 22 مسافر ٹرینوں اور 20 مال گاڑیوں کی پٹری سے اترنے کے واقعات شامل ہیں، جبکہ تین دیگر نوعیت کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔

ان حادثات میں متعدد افراد زخمی ہوئے اور ریلوے کو کروڑوں روپے کا مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ حکام کے مطابق، حادثات کی بڑی وجوہات میں غیر محفوظ لیول کراسنگ، نظام میں فنی خامیاں، اور بعض علاقوں میں تخریبی کارروائیاں شامل ہیں۔
21 مئی کو پیش آنے والا سنگین حادثہ اس وقت رونما ہوا جب شالیمار ایکسپریس، کراچی سے لاہور جاتے ہوئے، ساحیانوالہ دارالاحسان کے قریب ایک بغیر پھاٹک کے ریلوے کراسنگ پر اینٹوں سے لدی ٹرالی سے ٹکرا گئی۔ اس تصادم کے نتیجے میں ٹرین کی تمام 15 بوگیاں پٹری سے اتر گئیں۔
یہ بھی پڑھیں: عالمی یوم انسدادِ منشیات: دنیا بھر میں کوکین کے استعمال میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے، اقوامِ متحدہ
اسی نوعیت کا ایک اور واقعہ 30 مئی کو پیش آیا جب رحمان بابا ایکسپریس ایک بغیر پھاٹک کے لیول کراسنگ پر ٹرالی سے ٹکرا گئی۔ یکم جون کو پاکستان ایکسپریس کو اس وقت ایک بڑے حادثے سے بچایا گیا جب مبارک پور کے قریب ڈائننگ کار کے نیچے نصب ٹرالی اچانک الگ ہو گئی۔

14 جون کو ایک ہی دن میں تین مختلف حادثات پیش آئے۔ خوشحال خان خٹک ایکسپریس کی چھ بوگیاں کندھ کوٹ کے قریب پٹری سے اتر گئیں، علامہ اقبال ایکسپریس میں دورانِ سفر بریک بلاک کی خرابی سامنے آئی، جبکہ تھل ایکسپریس کی ایک کار سے ٹکر ہو گئی۔
18 جون کو جعفر ایکسپریس کو جیکب آباد کے قریب تخریب کاری کا نشانہ بنایا گیا، جہاں پٹری کے نیچے نصب دھماکہ خیز مواد کے پھٹنے سے ٹرین کی پانچ بوگیاں الٹ گئیں۔ ان واقعات کے علاوہ، متعدد ٹرینوں میں سفر کے دوران ایئر کنڈیشنرز کی خرابی اور انجن کا گرم ہو جانا بھی رپورٹ ہوا، جس کے باعث مسافروں کو دورانِ سفر رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔
ترجمان پاکستان ریلوے کے مطابق، تمام دستیاب وسائل اور حفاظتی اقدامات کے باوجود حادثات کی روک تھام میں مشکلات کا سامنا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ حفاظتی نظام کو بہتر بنانے، پھاٹکوں پر نگرانی بڑھانے، اور بنیادی ڈھانچے کی اپ گریڈیشن کے لیے مزید اقدامات پر غور جاری ہے۔
متعلقہ حکام کے مطابق، حادثات کی بڑھتی ہوئی تعداد پر قابو پانے کے لیے تحقیقاتی رپورٹس کی روشنی میں پالیسی اصلاحات اور فنی بہتری کے اقدامات متوقع ہیں۔