یوکرین کو ملنے والی امریکی اور یورپی امداد میں حالیہ مہینوں کے دوران کی جانے والی کٹوتیوں کے نتیجے میں ملک کی انسانی امدادی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ مقامی و عالمی ادارے مالی مسائل کے باعث اپنے منصوبے سمیٹنے یا محدود کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
امداد میں کمی کا آغاز جنوری 2025 میں ہوا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تمام غیر ملکی امداد معطل کرنے کا حکم دیا اور امریکی ادارہ برائے عالمی ترقی (یو ایس ایڈ) کی سرگرمیاں منجمد کر دی گئیں۔ یوکرین ان حملوں کے بعد سب سے زیادہ امریکی امداد حاصل کرنے والا ملک رہا ہے۔

یو ایس ایڈ کی ویب سائٹ کے مطابق، روس کے فروری 2022 میں مکمل حملے کے بعد سے یوکرین کو 2.6 ارب ڈالر کی انسانی امداد، 5 ارب ڈالر کی ترقیاتی امداد اور 30 ارب ڈالر بجٹ میں براہ راست دیے جا چکے ہیں۔ تاہم، مارچ 2025 تک ان میں سے زیادہ تر منصوبے معطل یا بند ہو چکے ہیں۔
خطرے میں پڑے ان منصوبوں کا اثر عام شہریوں پر براہ راست پڑ رہا ہے۔ خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق ، مشرقی یوکرین کے گاؤں نکوپول میں 13 سالہ نازار اس وقت زخمی ہوا جب پھٹنے والا ایک مواد اس کے پیروں کے نیچے پھٹ گیا۔
اس کی والدہ یوہینیا موسٹووا نے بتایا کہ ہمیں بیساکھیاں، چلنے والا فریم، اور ایک ٹیبلٹ دیا گیا، لیکن زیادہ تر مالی امداد ملی۔ ان کا کہنا تھا کہ اب یہ امداد ختم ہو رہی ہے اور وہ مزید ادویات خریدنے سے قاصر ہیں۔

امداد فراہم کرنے والے ادارے جیسے انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی آئی آر سی اور 100 فیصد لائف تنظیم بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ ڈی ایمیٹر ، جو کہ صحت سے متعلق یوکرینی تنظیم کے شریک بانی ہیں ان کا کہنا ہے کہ امریکی امداد میں کمی نے ہماری تنظیم پر فوری اور شدید اثر ڈالا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یوکرین نہ صرف ایچ آئی وی، تپ دق اور ہیپاٹائٹس جیسی بیماریوں کا شکار ہے بلکہ جنگ زدہ ملک ہونے کی وجہ سے اسے مالی مدد کی اشد ضرورت ہے۔
واضع رہے کہ برطانیہ اور جرمنی جیسے یورپی ممالک نے بھی اپنے انسانی امداد کے بجٹ میں کمی کی ہے۔ برطانیہ نے امدادی بجٹ کو 2027 تک مجموعی قومی آمدن کے 0.5 فیصد سے کم کر کے 0.3 فیصد کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ جرمنی نے اپنے مجموعی امدادی بجٹ میں تقریباً 10 فیصد کمی کی ہے۔

کیف میں آئی آر سی کے کنٹری ڈائریکٹر ایلن ہومسی نے کہا کہ این جی اوز اب یوکرین میں دستیاب محدود فنڈز کے لیے آپس میں مقابلہ کر رہی ہیں۔ان کے مطابق یوکرین کے طول و عرض میں 1,000 کلومیٹر سے زائد کی فرنٹ لائن پر لاکھوں شہری روزانہ روسی حملوں کے خطرے میں زندگی گزار رہے ہیں اور ضروریات مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں۔
یوکرین کی حکومت نے یورپی اتحادیوں سے امداد جاری رکھنے کی اپیل کی ہے لیکن فی الحال اس میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ برطانیہ کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ یوکرین کی حمایت میں کسی قسم کی کمی نہیں کی جائے گی لیکن تسلیم کیا کہ حالیہ حکومتی اخراجات کے جائزے کے بعد کچھ منصوبے متاثر ہو سکتے ہیں۔
جرمن حکام نے بھی کہا کہ یوکرین ان کی ترجیح ہےتاہم مجموعی امداد میں کمی کا مطلب یہ نہیں کہ یوکرین کے لیے مخصوص فنڈز بھی کم کیے جائیں گے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے اس معاملے پر فوری ردعمل سامنے نہیں آیا۔
یوکرین کے دیہی علاقوں میں قائم کلینک اور موبائل میڈیکل ٹیمیں بھی ان کٹوتیوں سے متاثر ہو رہی ہیں، جبکہ ملک کے متعدد این جی اوز نے اسٹاف میں کمی، تنخواہوں میں کٹوتی اور دفاتر بند کرنے کی تصدیق کی ہے۔