Follw Us on:

چینی کار ساز کمپنیاں عالمی مارکیٹ میں وی ڈبلیو اور ٹیسلا کے لیے خطرہ بن گئیں

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Chaina cars
چینی کار ساز کمپنیاں عالمی مارکیٹ میں وی ڈبلیو اور ٹیسلا کے لیے خطرہ بن گئیں( فوٹو:رائٹرز)

چینی آٹو کمپنیاں برق رفتاری اور جدید ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر عالمی مارکیٹ میں روایتی اداروں جیسے فولکس ویگن اور ٹیسلا کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہیں۔ اکتوبر 2023 میں، چینی کمپنی چیری نے صرف چھ ہفتوں میں اپنی SUV اوموڈا 5 کو یورپی مارکیٹ کے تقاضوں کے مطابق مکمل طور پر تبدیل کر کے فروخت کے لیے پیش کر دیا،ایک ایسا کارنامہ جو روایتی یورپی یا امریکی کمپنیوں کے لیے مہینوں یا سالوں پر محیط ہوتا ہے

عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق یہ کار ابتدا میں چین کی ہموار سڑکوں کے لیے تیار کی گئی تھی، تاہم یورپی سڑکوں کے تقاضوں کے مطابق اس میں اسٹیئرنگ، بریک، سسپنشن اور دیگر حصے تبدیل کیے گئے۔

چینی اداروں کی یہی برق رفتاری ان کی عالمی برتری کا سبب بن رہی ہے۔ رپورٹس کے مطابق، چینی کمپنیاں اب صرف 18 ماہ میں نئی گاڑیاں تیار کر رہی ہیں، جب کہ غیر ملکی برانڈز کے ماڈلز کی اوسط عمر 5.4 سال ہے، مقابلتاً چینی ماڈلز کی عمر صرف 1.6 سال ہے۔

چیری اور BYD نے 2024 میں عالمی فروخت میں 40 فیصد اضافہ کیا، جب کہ ٹیسلا کو اپنی پرانی ماڈلز کی وجہ سے فروخت میں کمی کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ بھی پڑھیں:گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ، اب ہونڈا سی ڈی 70 پاکستان میں کتنے کی ملے گی

چینی کمپنیاں اب زیادہ تر پرزہ جات خود بناتی ہیں، جس سے لاگت کم اور تیاری تیز ہو جاتی ہے۔ BYD کے 9 لاکھ ملازمین، کمپنی کی رفتار اور پیداواری قوت کا مظہر ہیں۔ کمپنی اپنے ملازمین کو رہائش، تعلیم اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات بھی دیتی ہے تاکہ کام پر توجہ مرکوز رہے۔

ماہرین کے مطابق، چینی ادارے ویسٹ میں رائج طویل اور مہنگے معیار کو غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ کم پروٹوٹائپ، زیادہ مصنوعی ذہانت اور صارفین کی آراء پر تیز اپڈیٹس کو ترجیح دیتے ہیں۔

مزید پڑھیں:پاکستان میں گاڑیاں امپورٹ کرنے پر نئی شرائط عائد، کتنی بچت ممکن ہے؟

چینی مارکیٹ میں 169 میں سے 93 کار ساز اداروں کا مارکیٹ شیئر 0.1 فیصد سے بھی کم ہے، جب کہ پیداواری گنجائش سالانہ 54 ملین تک جا پہنچی ہے، جو مقامی طلب سے تقریباً دگنی ہے۔ اس زیادتی نے قیمتوں میں شدید مسابقتی دباؤ پیدا کیا ہے۔

Author

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس