کربلا سے غزہ تک کا سفر صدیوں پر محیط ہے، مگر مظلوم کی آہ، ظالم کا جبر، اور خاموش تماشائیوں کی بے حسی آج بھی ویسی ہی ہے جیسی کربلا کے تپتے ہوئے ریگزار میں تھی۔
تاریخ بدل گئی، زمینیں بدل گئیں، چہرے نئے ہو گئے، مگر زخم وہی پرانے ہیں۔ ایک طرف کربلا میں حسینؑ کا قافلہ تھا، پانی کو ترستا ہوا، اصول پر ڈٹا ہوا۔ اور آج غزہ میں بچوں کی لاشیں، ماؤں کی سسکیاں، اور بے بس انسانیت ایک اور یزید کے سامنے کھڑی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی تاریخ خود کو دہرا رہی ہے؟ کیا ظلم کی شکلیں بدل کر بھی وہی رہتی ہیں؟ اور کیا حق کے لیے جان دینا آج بھی وہی معنی رکھتا ہے جو کربلا میں رکھتا تھا؟
