آیت اللہ خامنہ ای 1989 سے ایران کے سپریم لیڈر ہیں لیکن وہ پسِ پردہ شخصیت ہرگز نہیں ہیں۔ بلکہ وہ ایران کی سیاست، مذہب، فوجی حکمتِ عملی، عالمی پالیسی اور یہاں تک کہ جوہری عزائم کی تشکیل دینے والی مرکزی قوت ہیں۔
اسلامی تاریخ اور ثقافت کی ویب سائیٹ البدایہ کے مطابق 1939 میں شمال مشرقی ایران کے شہر مشہد میں ایک سادہ مذہبی گھرانے میں پیدا ہونے والے خامنہ ای کے پس منظر سے ان کے مستقبل کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ آیات اللہ علی خامنہ ای کا آبائی گھر چھوٹا لیکن بھرا ہوا تھا جس میں صرف ایک کمرہ اور ایک تہہ خانہ تھا۔ رات کے کھانے میں کشمش والا نان ہوتا تھا۔ باپ انہیں عاجزی اور ایمان سکھایا کرتا تھا۔ وہیں سے نوجوان علی کی اسلامی تعلیمات سے وابستگی اس کی رہنمائی کا ستارہ بنی۔
نوعمری میں ہی وہ قم اور نجف میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ اٹھارہ سال کی عمر تک فقہ، فلسفے اور تفسیرِ قرآن میں گہرائی سے مشغول ہو چکے تھے۔ انہوں نے صرف علم حاصل نہیں کیا بلکہ اپنے عقائد کے مطابق خود کو ڈھالا۔
دی خلافت ٹائمز کے مطابق خامنہ ای ڈاٹ آئی آر کے مطابق 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں انہوں نے شاہی حکومت کے خلاف احتجاج کیا۔ ایرانی خفیہ فورس SAVAK کے ہاتھوں گرفتار اور تشدد کا نشانہ بنے۔
میموری انفوکے مطابق 1979 کے انقلاب کے بعد انہوں نے تیزی سے ترقی کی۔ وہ تہران میں جمعہ کے امام، مجلسِ خبرگان کے رکن، نائب وزیرِ دفاع، اور راجئی کے قتل کے بعد 1981 میں صدر بنے۔ یہاں تک کہ ایک بم دھماکے میں زخمی بھی ہوئے جس سے ان کا بازو مفلوج ہو گیا۔ لیکن ان کا اثر صرف انتظامی عہدوں تک محدود نہ رہا۔

دی ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے پاسدارانِ انقلاب سے قریبی تعلقات قائم کیے۔ 1989 میں مرجع کا روایتی مذہبی درجہ نہ ہونے کے باوجود انہیں آئینی طور پر سپریم لیڈر مقرر کر دیا گیا۔
اے پی نیوز کی رپورٹ کے مطابق وہ ایک عملی مزاج سخت گیرانسان ہیں جنہوں نے مذہبی اختیار کو سائنسی ترقی سے متوازن رکھا، جوہری تحقیق کی حمایت کی، اسٹیم سیل تھراپی کو اپنایا اور پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مضبوط مزاحمتی معیشت کی راہنمائی کی۔ انہیں وجوہات کی بنیاد پر ان کے حامی ان کو “ایرانی بقا کا معمار” کہتے ہیں۔
دوسری جانب ‘دی آسٹریلین’ کی رپورٹ کے مطابق ان پر تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ ان کی حقیقت پسندانہ پالیسیاں اکثر طاقت کے ارتکاز کا پردہ ہوتی ہیں۔ انہوں نے اصلاح پسندوں کو الگ کیا، 2009 کی گرین موومنٹ اس کی واضح مثال ہے۔ ناقدین کے نزدیک انہوں نے اختلاف رائے کو دبایا، صحافیوں اور کارکنوں کے خلاف کارروائیاں کروائیں، خواتین اور اقلیتوں پر سخت پابندیاں لگائیں، اور متنازع سیاسی قیدیوں کو قید رکھا۔ ناقدین کی تنقید کے باوجود خامنہ ای کبھی بھی ہجوم میں مدغم نہیں ہوئے۔ وہ انتہائی نظریاتی شخصیت ہیں۔ کوئی بھی انہیں خوش مزاج بزرگ سیاستدان نہیں سمجھتا۔