Follw Us on:

برائن لارا کا ریکارڈ توڑ سکنے کے باوجود ایسا نہ کرنے پر جنوبی افریقن کپتان کے چرچے

زین اختر
زین اختر
Wiaan mulder
جنوبی افریقن قائم مقام کپتان نے حیران کن طور پر لنچ بریک پر ہی اننگز ڈیکلیئر کر دی۔ (فوٹو: کرک بز)

بولاوایو میں زمبابوے کے خلاف دوسرے ٹیسٹ کے دوسرے دن ویان ملڈر لنچ کے وقت 367 رنز پر ناٹ آؤٹ تھے، اور اُن کے پاس عظیم ویسٹ انڈین بلے باز برائن لارا کا ناقابلِ شکست 400 رنز کا عالمی ریکارڈ توڑنے کا واضح موقع موجود تھا۔

مگر جنوبی افریقن قائم مقام کپتان نے حیران کن طور پر لنچ بریک پر ہی اننگز ڈیکلیئر کر دی۔ ان کے اس فیصلے نے دنیائے کرکٹ میں کئی سوالات کو جنم دیا، لیکن ملڈر نے ایک شاندار وضاحت پیش کی۔

میچ کے بعد سابق فاسٹ بولر شان پولاک سے گفتگو میں ملڈر نے کہا، “سب سے پہلے تو میں نے سمجھا کہ ہمارے رنز کافی ہو چکے ہیں، ہمیں اب بولنگ کرنی ہے۔ اور دوسرا، برائن لارا ایک لیجنڈ ہیں، بالکل حقیقت یہی ہے۔ اُنہوں نے انگلینڈ کے خلاف 400 رنز بنائے، اور اس مرتبہ کسی ایسی شخصیت کے پاس ہی یہ ریکارڈ رہنا چاہیے۔”

ویان ملڈر کے برائن لارا کا 400 رنز کا ریکارڈ نہ توڑنے کے فیصلے نے پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایک جذباتی بحث چھیڑ دی ہے۔ بہت سے صارفین اس فیصلے کو “عظمت کا مظہر” قرار دے رہے ہیں، جب کہ کچھ حیرت کا اظہار کر رہے ہیں کہ کوئی بلے باز اس مقام پر پہنچ کر بھی پیچھے کیوں ہٹ جائے۔

Wiaan mulder.
برائن لارا ایک لیجنڈ ہیں، بالکل حقیقت یہی ہے۔۔ (فوٹو: کرک انفو)

ٹوئٹر پر صارف ناصر بٹ نے اپنی پوسٹ میں اس فیصلے کو ایک “سوچ کا فرق” قرار دیا۔ اُن کے مطابق یہ واقعہ تھرڈ ورلڈ اور فرسٹ ورلڈ مائنڈسیٹ میں واضح تضاد کو بے نقاب کرتا ہے۔ ناصر نے لکھا “جہاں ہمارے جیسے ملکوں میں کسی کھیل میں ریکارڈ بنانا گویا دنیا فتح کرنا ہوتا ہے، وہاں فرسٹ ورلڈ کے لوگ اسے ایک عام سی بات سمجھتے ہیں۔ وہاں اگر کسی لیجنڈ کو عزت دینی ہو تو لوگ ذاتی سنگِ میل سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔”

یہ بھی پڑھیں: چین، روس اور ایران کی بڑھتی قربتیں: کیا یہ نئی عالمی سرد جنگ کی شروعات ہے؟

ناصر نے ایک دلچسپ نکتہ یہ بھی اٹھایا کہ اگر ملڈر کپتان نہ ہوتے، اور ڈیکلئریشن کا فیصلہ کسی اور نے کیا ہوتا تو آج ساؤتھ افریقہ کے کپتان پر پاکستانی سوشل میڈیا میں تنقید کی بوچھاڑ ہو چکی ہوتی۔ لیکن چونکہ ملڈر خود کپتان تھے، اس لیے فیصلہ بھی اُن کا اپنا تھا۔

انہوں نے آسٹریلیا کی مثال دی کہ کئی ورلڈ کپ جیتنے کے باوجود وہاں جیتنے والے کپتان کو صرف ایک کھلاڑی کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے، جب کہ یہاں ہم اب بھی 1992 کے ورلڈ کپ کے سائے سے باہر نہیں نکل سکے۔

ناصر کے مطابق اگر یہی فیصلہ کسی پاکستانی بلے باز نے کیا ہوتا، تو نہ صرف اسے نالائق کہا جاتا بلکہ اس کے کیریئر پر سوالیہ نشان لگ جاتے۔ جبکہ ساؤتھ افریقہ کے ملڈر کا یہ فیصلہ، فرسٹ ورلڈ کی بالغ نظری اور کھیل میں اخلاقی برتری کی عکاسی کرتا ہے۔

اس پوسٹ کے کمنٹ سیکشن میں صارفین نے دلچسپ کمنٹس کیے۔ ایک صارف نے لکھا کہ “سر یہاں تو پاکستانی کھلاڑی اک میچ میں سنچری بناکر کر آگے کے کئی میچز میں جگہ پکی کر جاتا ہے اور اگر یہی موقع کسی پاکستانی کھلاڑی کو ملتا تو وہ ضرور لارا کا ریکارڈ صرف اس لیے توڑ دیتا تاکہ آنیوالے میچز اسے کوئی ٹیم سے ہٹا نہ سکے۔”

Ss..

ایک اور صارف نے لکھا کہ “پروٹیز ایسے فیصلوں سے حیران کر دیتے ہیں۔ کیرئیر کے عروج پر اچانک ریٹائرمنٹ لے لیتے ہیں۔”

Ss,.

Author

زین اختر

زین اختر

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس