Follw Us on:

بلاول بھٹو کا غیر ذمہ دارانہ انٹرویو، قومی نظریے کو ختم کرنے کی سازش یا سیاسی منافقت؟

خالد شہزاد فاروقی
خالد شہزاد فاروقی
Whatsapp image 2025 07 09 at 17.07.38

بلاول بھٹو زرداری کا حالیہ غیر ملکی انٹرویو قومی خودمختاری، ریاستی بیانیے اور اجتماعی عزتِ نفس پر ایک ایسا کاری وار ہے جس کے مضمرات محض سیاسی نہیں بلکہ قومی سلامتی سے جڑے ہوئے ہیں۔وہ شخص جو اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کا چیئرمین ہے، ایک ایسی جماعت کا سربراہ، جس  نے ماضی میں عوامی جذبات اور قومی موقف کی ترجمانی کا بیڑا اٹھا رکھا تھا،  آج وہی شخص دشمن کی زبان بول کر اپنے ہی ملک کے خلاف ایک ایسا مقدمہ قائم کر رہا ہے جس کا فائدہ براہِ راست صرف بھارت اور اس کے حواریوں کو پہنچتا ہے۔

بلاول بھٹو کے انٹرویو میں سب سے زیادہ تشویشناک نکتہ وہ مبہم مگر مہلک اصطلاح ہے جسے انہوں  نے’خاص افراد‘کہہ کر استعمال کیا۔یہ اصطلاح بظاہر معتدل مگر اس کا مفہوم بہت خطرناک ہے۔حافظ محمد سعید اور مسعود اظہر جیسے افراد کو ’خاص فرد‘قرار دینا گویا عالمی طاقتوں کی خوشنودی کے لئے اپنے شہریوں کو قانون سے بالاتر ہو کر’قربان‘ کرنے کا عندیہ دینا ہے۔

ایک سیاسی رہنما کا اس انداز میں غیر ریاستی ذمہ داری اٹھا لینا محض سفارتی لغزش نہیں بلکہ یہ آئینی حدود سے تجاوز ہے۔ یہ کہنا کہ’اگر بھارت اور پاکستان کے درمیان جامع مذاکرات ہوں تو پاکستان کسی خاص فرد کی حوالگی میں ہچکچاہٹ نہیں کرے گا‘خود اپنے ہی آئینی اور عدالتی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان ایک خود مختار ریاست نہیں؟ کیا پاکستانی شہریوں کے فیصلے اقوام متحدہ یا بھارتی حکومت کرے گی؟اور کیا یہ ممکن ہے کہ کسی ملک میں شواہد کے بغیر صرف الزام کی بنیاد پر کسی شہری کو دشمن ریاست کے حوالے کر دیا جائے؟اگر کل بھارت یہ مطالبہ کرے کہ فلاں صحافی، فلاں سیاست دان، فلاں عالم دین یا فلاں تنظیم کا رکن دہشت گرد ہے تو کیا بلاول زرداری پھر بھی ایسی ہی لچکدار رائے دیں گے؟

مزید سنگینی تب پیدا ہوتی ہے جب بلاول یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ’حافظ سعید پاکستان کی تحویل میں ہیں اور مالی معاونت کے مقدمات میں سزا یافتہ ہیں‘گویا ایک ایسا شخص جو کئی سالوں سے جیلوں میں ’ناکردہ گناہوں اور جذبہ حب الوطنی‘کی سزا ’انتہائی خاموشی‘سے بھگت رہا ہے، جس کی تنظیم پورے پاکستان میں رفاہی خدمات کی وجہ سے جانی جاتی تھی،  جس کی ایمبولینسیں زلزلے، سیلاب اور جنگ زدہ علاقوں میں سب سے پہلے پہنچتی تھی، اسے صرف بین الاقوامی دباؤ میں آ کر اس طرح ’مجرم‘قرار دینا انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور نقصان دہ رویہ نہیں؟۔

یہ وہی اندازِ فکر ہے جس  نے جنرل مشرف کے دور میں پاکستان کو ایک’بلیک میل ہونے والی ریاست‘بنا دیا تھا، جہاں ڈالرز کے بدلے شہری حوالہ کیے گئے، سی آئی اے کی پروازیں پاکستانی ہوائی اڈوں سے چلیں اور بے گناہ افراد گوانتا نامو کی جہنم میں دھکیل دیے گئے۔جنرل مشرف  نے اپنی کتاب In the Line of Fire میں خود تسلیم کیا کہ انہوں  نے سینکڑوں افراد کو امریکہ کے حوالے کیا اور ہر شخص کے بدلے ڈالرز وصول کیے۔اگر یہی طرزِ عمل آج بھی اپنایا جا رہا ہے تو سوال یہ ہے کہ پھر قانون، آئین اور عدالتوں کا کیا مصرف رہ جاتا ہے؟کیا بلاول بھٹو زرداری اب اس پالیسی کو از سر نو زندہ کرنا چاہتے ہیں؟اگر نہیں تو پھر وہ ایسے بیانات کیوں دے رہے ہیں جو نہ صرف پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی دعوت دیتے ہیں بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کو کمزور اور بے حیثیت بنا کر پیش کرتے ہیں؟

مسعود اظہر کے بارے میں بلاول کا یہ کہنا کہ’ہمیں یقین ہے کہ وہ افغانستان میں ہے‘اور ساتھ ہی یہ اضافہ کرنا کہ’اگر بھارت ثبوت دے تو ہم کارروائی کریں گے‘ایک انتہائی غیر سنجیدہ، مبہم اور خطرناک تضاد کا اظہار ہے۔یہ کہنا کہ ہم  نے اسے تلاش نہیں کیا اور پھر ساتھ ہی کارروائی کا عندیہ دینا، ایک ایسے سیاسی رہنما کے لیے نامناسب ہے جو ایک ایٹمی ریاست کی قیادت کا خواب رکھتا ہے۔مزید برآں، بلاول کا یہ بیان کہ ’بھارت ہر دہشت گردی کے واقعے کے بعد جنگی ماحول پیدا کرتا ہے اور یہ نارمل بن چکا ہے‘اپنے تئیں ایک حقیقت پسند تجزیہ ہو سکتا ہے مگر جب اسی فقرے کے اگلے سانس میں وہ بھارت سے مزید’اعتماد سازی‘اور’ثبوت ملنے پر کارروائی‘کی امید باندھتے ہیں تو یہ صرف سادگی نہیں بلکہ سیاسی منافقت ہے۔جو ملک خود جنگی ماحول پیدا کر رہا ہو، جھوٹے الزامات لگا کر پاکستان کو عالمی تنہائی میں دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہو، کیا اُس سے اعتماد کی امید رکھنا سمجھداری ہے یا نادانی۔

یہ تمام بیانات اصل میں ایک بڑے بیانیے کا حصہ ہیں، وہ بیانیہ جس میں دشمن کے پروپیگنڈے کو’اندر سے‘ تقویت دی جاتی ہے تاکہ عالمی رائے عامہ کو یہ تاثر دیا جائے کہ خود پاکستانی قیادت بھی مانتی ہے کہ ہم دہشت گردوں کے پشت پناہ ہیں اور ہم سے سوال کرنا درست ہے۔یہی تو بھارت چاہتا ہے۔یہی تو امریکہ اور اس کے حواریوں کی خواہش ہے کہ پاکستانی خود اپنے خلاف گواہی دیں اور پھر عالمی عدالتیں، اقوام متحدہ، فیٹف اور دیگر ادارے اس گواہی کو بنیاد بنا کر پاکستان کو دبا سکیں۔یاد رکھیے، یہ صرف دو افراد کی بات نہیں، یہ ایک نظریے کی جنگ ہے۔حافظ سعید اور مسعود اظہر وہ نام ہیں جو بھارتی ظلم کے خلاف مزاحمت کے استعارے بن چکے ہیں۔

اگر ان کی حوالگی پر آمادگی ظاہر کر دی جائے تو کل کشمیر کی تحریک آزادی بھی دہشت گردی کہلائے گی اور جو بھی بھارت کے خلاف بولے گا، اسے’خاص فرد‘کہہ کر بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑا جا سکے گا۔افسوس کا مقام یہ ہے کہ بلاول جیسے نوجوان سیاستدان سے قوم کو امید تھی کہ وہ مغربی غلامی کے اس دائمی چکر سے نکل کر پاکستان کو خودداری کا راستہ دکھائیں گے مگر یہ انٹرویو واضح کرتا ہے کہ وہ بھی اسی سوچ کا تسلسل ہیں جو عالمی منظوری کی خاطر قومی مفادات کو داؤ پر لگانے سے نہیں چوکتی۔یہ لمحہِ فکریہ ہے۔بلاول کا یہ انٹرویو محض ایک رائے نہیں بلکہ پوری قوم کے خلاف فردِ جرم ہے۔اگر اس پر خاموشی اختیار کی گئی تو کل یہی روش دیگر سیاستدانوں کے لیے جواز بنے گی کہ وہ بھی بین الاقوامی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے پاکستانی شہریوں کو قربان کرتے رہیں۔ہمیں اس طرزِ سیاست کو مسترد کرنا ہو گا، واضح، دو ٹوک اور باوقار انداز میں۔

پاکستان کو اپنے بیانئے، اپنی عدالتوں اور اپنے اداروں پر مکمل اعتماد کرنا ہو گا۔جو بھی شخص پاکستان کا شہری ہے، وہ پاکستانی عدالت کے تحت آتا ہے اور اس کا فیصلہ صرف عدالت کرے گی، نہ کہ کوئی سیاسی جماعت، نہ کوئی بین الاقوامی دباؤ۔قوم کو چاہیے کہ وہ ان بیانات کے خلاف آواز بلند کرے اور یہ باور کرائے کہ قومی غیرت کو قربان کر کے کبھی پائیدار امن یا عالمی عزت حاصل نہیں ہوتی۔اپنی خودی پر یقین رکھنا ہو گا، ورنہ وہ وقت دور نہیں جب دشمن سرحد پار نہیں، دلوں اور دماغوں کے اندر سے وار کرے گا اور ہمیں خبر بھی نہ ہو گی۔یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ حافظ سعید اور مسعود اظہر صرف افراد نہیں بلکہ ایک نظریے کی علامت ہیں۔

ان کی حوالگی کا مطالبہ دراصل اس نظریے کو ختم کرنے کی سازش ہے جو بھارت کی جارحیت کے خلاف مزاحمت کی علامت رہا ہے۔جب آپ ایسے افراد کو دشمن کے حوالے کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں تو آپ دراصل اپنے بیانئے سے دستبردار ہو رہے ہوتے ہیں۔بلاول بھٹو کا یہ انٹرویو ایک واضح مثال ہے کہ کس طرح پاکستان کی اشرافیہ قومی مفادات کو ذاتی شہرت، عالمی خوشنودی اور سیاسی مقبولیت کی خاطر قربان کر دیتی ہے۔اگر یہی روش جاری رہی تو وہ دن دور نہیں جب ہم اپنے دفاعی اداروں، اپنے علما اور اپنے نظریاتی کارکنوں کو بھی’عالمی مطالبے‘ کے تحت قربان کرنے لگیں گے۔

یہ وقت ہے کہ عوام، ذرائع ابلاغ اور مقتدر حلقے ان بیانات کا سنجیدہ نوٹس لیں اور قومی بیانئے کو کمزور کرنے والوں کا محاسبہ کریں۔سیاست دان ان آتے جاتے رہتے ہیں مگر ریاست کے نظریات اور اصول مستقل ہونے چاہئیں۔اگر ہم  نے ہر دباؤ کے سامنے جھکنا شروع کر دیا تو ایک دن پاکستان صرف ایک جغرافیہ رہ جائے گا، نظریہ باقی نہ بچے گا۔پاکستان کو اب دو ٹوک مؤقف اپنانا ہو گا، نہ اپنے شہریوں کی بلاجواز حوالگی، نہ دشمن کے بیانیےکی تائید،  نہ معذرت خواہانہ سفارتکاری اور نہ’خاص افراد‘ کے نام پر قومی غیرت کا سودا۔

نوٹ: بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ ایڈیٹر

سینئر صحافی، کالم نگار اور بلاگر ہیں، پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔

خالد شہزاد فاروقی

خالد شہزاد فاروقی

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس