Follw Us on:

رجیم چینج آپریشن امریکی پالیسی کا حصہ، کیا عمران خان حکومت کی تبدیلی کے پیچھے بھی امریکا کا ہاتھ تھا؟

اظہر تھراج
اظہر تھراج
Whatsapp image 2025 07 09 at 21.55.42
امریکی صدر ٹرمپ کا دوسرا ہدف خامنہ ای رجیم کی تبدیلی ہے۔ (تصویر: پاکستان میٹرز)

اسرائیل اور ایران کی جنگ میں امریکا ایسے ہی نہیں کود پڑا۔ اس کے دو اہداف تھے۔ ایک ایرانی جوہری پروگرام کی تباہی اور دوسرا آیت اللہ خامنہ ای کے اقتدار کا خاتمہ۔ پہلے ہدف میں تو کسی حد تک امریکا کامیاب رہا مگر دوسرے ہدف تک نہیں پہنچ سکا۔

دیکھا جائے تو دنیا کے نقشے پر اگر کسی ملک نے سب سے زیادہ سیاسی مداخلت اور حکومتوں کی تبدیلی میں کردار ادا کیا ہے تو وہ بلاشبہ امریکا ہے۔ کمزور ممالک کے عوام کو خوشنما خواب دکھا کر حکومتیں بدلیں، وسائل لوٹے اور چلتا بنا۔ 

امریکا نے دنیا پر اپنی پکڑ مضبوط بنانے کے لیے مختلف ممالک کے اندرونی مسائل اوربعض اوقات دو ملکوں کو آپس میں الجھا کر اپنے سیاسی مفادات حاصل کیے۔ جس نے عوامی حلقوں میں ان سوالات کو جنم دیا کہ کیا امریکا واقعی دنیا بھر میں حکومتیں گراتا ہے؟ یا صرف اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرتا ہے؟

اس حوالے سے  ڈین سوشل سائنسز بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ڈاکٹر عمر فاروق زین کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں ’رجیم چینج‘ کی پالیسی امریکا کی ہی ہے کسی اور کی نہیں۔ اس پالیسی کو بنانے والی امریکی سی آئی اے اور این ایس اے ہے۔

ان کے مطابق امریکی اپنے قومی مفاد پر کسی چیز کو فوقیت نہیں دیتے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا تحفظ ان کی اولین ترجیح ہے۔

رجیم چینج پالیسی کو اگر ایک سادہ تعریف میں بیان کیا جائے تو یہ وہ حکمت عملی ہے جس کے تحت ایک ریاست کسی دوسرے ملک کی حکومت کو ختم کرنے یا تبدیل کرنے کے لیے اکثر خفیہ طریقوں سے، کبھی براہِ راست فوجی مداخلت کے ذریعے اور کبھی سفارتی یا معاشی دباؤ ڈال کر کوشش کرتی ہے۔

Trump iowa
ٹرمپ کو نوبل انعام دینے کی بات بھی کی جارہی ہے۔ (فوٹو: رائٹرز)

ڈاکٹر نعمان شاہ کہتے ہیں کہ ’رجیم چینج‘ امریکا کی مستقل پالیسی کا حصہ نہیں ہے۔ یہ وقت کے ساتھ استعمال کرتا ہے۔

تاریخ میں واضح ہے کہ رجیم چینج پالیسی کوئی نئی بات نہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد، جب امریکا ایک سپر پاور بن کر ابھرا، تب سے یہ رجحان واضح ہوتا گیا۔

1953 میں جب ایران کے وزیراعظم محمد مصدق نے تیل کی صنعت کو قومیانے کی کوشش کی، تو سی آئی اے اور برطانوی ایم آئی6 کی مشترکہ کارروائی نے مصدق کی حکومت کو ختم کروا دیا اور شاہ ایران کو دوبارہ طاقت دی۔

اسی طرح چلی میں 1973 میں منتخب صدر سلواڈور آلندے کے سوشلسٹ نظریات امریکا کو ناگوار گزرے اور آخرکار جنرل پنوشے کی بغاوت کے ذریعے ان کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا۔

2003 میں امریکا نے عراق پر حملہ کر کے صدام حسین کی حکومت ختم کی، دعویٰ تھا کہ وہاں “وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیار” موجود ہیں، جو بعد میں ثابت نہ ہو سکے۔

2011 میں لیبیا بھی معمر قذافی کو ہٹانے کے لیے نیٹو کی بمباری ہوئی اور امریکا نے پس پردہ کردار ادا کیا۔ آج لیبیا خانہ جنگی کا شکار ہے۔

یہ صرف چند نمایاں مثالیں ہیں، ورنہ فہرست اس سے کہیں طویل ہے۔ افغانستان، پانامہ، یوکرین، وینزویلا اور دیگر ممالک بھی اس میں شامل ہیں۔

پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عمرفاروق زین نے کہا ہے کہ رجیم چینج بلاشبہ اقتداراعلیٰ اور عالمی اقدار کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے، ملکوں کی خود مختاری پر حملہ اور اندرونی معاملات میں مداخلت کی گھناؤنی شکل کہلائی جاتی ہے۔

آخر امریکا کیوں چاہتا ہے کہ کچھ حکومتیں تبدیل ہوں؟ یہ سوال انتہائی پیچیدہ ہے، جس کے کئی اسباب ہیں جو کہ واضح نہیں۔

اگر کوئی حکومت امریکا کے جمہوری نظریے سے اختلاف رکھتی ہے یا سوشلسٹ، کمیونسٹ یا اسلامی نظریات رکھتی ہے، تو وہ امریکا کے نشانے پر آتی ہے۔ تیل، گیس، معدنیات یا دیگر قدرتی وسائل کی موجودگی اکثر امریکا کی دلچسپی کا باعث بنتی ہے۔

منہاج القرآن یونیورسٹی میں انٹر نیشنل ریلیشنز کے پروفیسر نعمان شاہ کہتے ہیں کہ دنیا کا کوئی بھی ملک ہو وہ سیاسی نظریات کو نہیں دیکھتا وہ اپنے مفادات کو دیکھتا ہے، امریکا رجیم چینج پالیسی عالمی قوانین کے خلاف ورزی ہے۔ 

ان سب کے علاوہ کچھ ممالک کا جغرافیائی محلِ وقوع ایسا ہوتا ہے کہ وہاں اثر و رسوخ رکھنا امریکا کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے۔ امریکا اکثراوقات انسانی حقوق کا نام استعمال کرتا ہے جوکہ ایک اخلاقی جواز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

امریکا رجیم چینج کے لیے کئی طریقے استعمال کرتا رہا ہے جیساکہ پہلے معیشت کو تباہ کیا جاتا ہے تاکہ عوام حکومت سے بدظن ہو جائیں۔ 

سی آئی اے دنیا بھر میں خفیہ آپریشنز میں ملوث رہی ہے، جن میں بغاوتیں، سازشیں اور اغوا جیسے اقدامات شامل ہیں۔ آزاد میڈیا کے نام پر ایسے نیٹ ورکس اور ذرائع بنائے جاتے ہیں جو رائے عامہ کو متاثر کرتے ہیں۔ اگر دیگر طریقے ناکام ہو جائیں تو براہِ راست فوجی کارروائی کی جاتی ہے۔

Syria pm
شامی صدر احمد الشرع امریکا کے لیے قابل قبول شخص بن چکے ہیں۔(فوٹو: ایل بی سی آئی)

اگر پاکستان کی بات کی جائے تو یہ بھی رجیم چینج کی بحث سے محفوظ نہیں رہا۔ عمران خان نے 2022 میں الزام لگایا کہ ان کی حکومت کو ایک امریکی سازش کے تحت ہٹایا گیا۔ 

ان کا دعویٰ تھا کہ امریکی سفارتکار کی جانب سے ایک سائفر میں پاکستان کی خارجہ پالیسی سے عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا، جس کے بعد عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی۔

ڈین سوشل سائنسز کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے ملکوں میں رجیم چینج اکثر ہوتی رہتی ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، یہ کسی بھی ملک کو غلامی کا سٹیٹس فراہم کرتا ہے۔ ہمارے جیسے ملک دست نگر ہی رہتے ہیں۔

امریکا کی رجیم چینج پالیسی نے دنیا کے کئی خطوں کو عدم استحکام سے دوچار کیا ہے۔ اگرچہ اس کا مقصد اکثر جمہوریت کا فروغ بتایا جاتا ہے، لیکن اس کے نتائج میں بیشتر اوقات تباہی، خانہ جنگی اور بیرونی انحصار شامل ہوتے ہیں۔

ڈاکٹرعمر فاروق نے کہا ہے کہ اقوام کی اندرونی خودمختاری ان کی معیشت، دفاعی قوت اور علاقائی سیاسی اہمیت پر منحصر ہوتی ہے، اگر عالمی معاملات میں ایسے ملک اپنی خارجہ پالیسی کا مؤثر استعمال کرنا جانتے ہوں تو ’رجیم چینج’ آسان نہیں ہوتی۔

ایک عام شہری کا گزشتہ کئی برسوں سے یہی سوال رہا ہے کہ کیا دنیا ہمیشہ ایسی طاقتوں کے فیصلوں پر چلے گی جو اپنے مفاد میں حکومتیں بنائیں اور گرائیں گے؟ یا پھر وقت آ گیا ہے کہ دنیا خودمختاری کی نئی لہر کو اپنائے گی؟

Author

اظہر تھراج

اظہر تھراج

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس