وفاقی وزرا سٹیج پر تھے اور ہرطرف ’حافظ حافظ ‘کے نعرے لگ رہے تھے، مجمع پرجوش تھا اور سٹیج پر کھڑے قائدین بھی خوشی سے نہال۔
محسن نقوی اور عطا تارڑ کچھ اور سوچنے کی کوشش کررہے تھے تو لیاقت بلوچ نے ان کے خیالات پر پانی پھیر دیا، وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ہمارے حافظ ہیں۔‘
نعروں میں شدت آتی ہے،دھرنے کی کامیابی کا اعلان ہوتا ہے اور ختم ہوجاتا ہے۔
جی ہاں میں بات کررہا ہوں جماعت اسلامی کے اس 14 روزہ دھرنے کی جو حکومت کے اتفاق سے لیاقت باغ کے سامنے دیا گیا۔ یہ ایک کامیاب دھرنا تھا، اس دھرنے کے نتیجے میں حکومت نے جماعت اسلامی سے معاہدہ کیا جس پر آج تک مکمل عمل نہیں ہوسکا۔ کامیاب اس سینس میں تھا کہ اس سے حافظ نعیم الرحمان کے موقف کو عوامی پذیرائی ملی۔
جماعت اسلامی نے 500 یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کو 50 فیصد رعایت
دینے کی بات کی تھی مگر یہ مطالبہ ابھی تک پورا نہیں ہوسکا۔ اسی طرح بقیہ مطالبات اور معاہدے میں شامل نکات کا بھی یہی حال ہوا۔

حافظ نعیم الرحمان نے اپوزیشن میں موجود قیادت کے خلا کو پر کیا ہے، جماعت اسلامی پارلیمانی سیاست میں تو نہیں مگر اصل اپوزیشن کا کردار ضرور نبھا رہی ہے۔ فلسطین کا مسئلہ ہویا کشمیر کے بارڈر ایریا پر انڈین بمباری سے عام انسانوں کا نقصان ہو۔ سبھی کے لیے ایک ہی توانا آواز حافظ نعیم کی صورت میں بلند ہوتی ہے۔
جب کسانوں، مزدروں کی کوئی بات نہیں کررہا تو یہ فریضہ بھی حافظ نعیم ادا کررہے ہیں۔ حتیٰ کہ عمران خان کی مظلومیت اور مخصوص نشستوں کا کیس بھی حافظ ہی لڑتے نظر آتے ہیں۔ جب حافظ ہی ایک اپوزیشن لیڈر کا کردار نبھارہے ہیں تو پارلیمنٹ میں بیٹھی اپوزیشن کو کیا تکلیف ہے؟
سوشل میڈیا پروقتاً فوقتاً حافظ نعیم الرحمان کی سیاست کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اس مہم میں مختلف اکاؤنٹس شامل ہیں جو بظاہر پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس ہیں، پی ٹی آئی نواز یوٹیوبرز اور انفلوئنسرز ہیں۔ یہ وہ اکاؤنٹس ہیں جو وقتاً فوقتاً ریاستی اداروں کیخلاف زہر اگلتے رہتے ہیں۔
پی ٹی آئی نے بھی ماضی میں دھرنے دئیے اور اب جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمان نے بھی دھرنا دیا ،حافظ کے ایک دھرنے کا نتیجہ سب کے سامنے ہے اور پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کے دھرنوں کے نتائج کو بھی دنیا جانتی ہے۔

راولپنڈی کے 14 روزہ دھرنے کے بعد حافظ نعیم الرحمان کی مقبولیت بڑھی ہے،مین سٹریم میڈیا،سوشل میڈیا ،عوامی حلقوں میں زیر بحث ہیں،اب وہ نوجوان بھی ان کی طرف راغب ہورہے ہیں جو عمران خان کے بہت کٹر قسم کے لورز مانے جاتے ہیں، عمران خان اوران کے ساتھیوں کو یہی خوف مارے جارہا ہے کہ جماعت اسلامی کا حافظ اسی رفتار سے آگے بڑھتا رہا تو ہمارے کپتان کا چہر ہ ماند پڑ جائے گا، ادھر ’جماعتیوں‘ کو خوش فہمی ہے کہ ’اب حافظ کا دور ہے‘ دونوں کو حبیب جالب کی روح کہہ رہی ہے کہ’ گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے، یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو۔
صحافتی حلقوں کا یہ خیال ہے کہ حکومت اورجماعت اسلامی ’دوستانہ ٹیسٹ میچ‘ کھیل رہے ہیں، یہ جتنا طویل ہوگا اس کا دونوں کو فائدہ ہوگا،عوام کی توجہ تقسیم رہے گی اور متبادل مزاحمتی قیادت پروان چڑھے گی، پی ٹی آئی کی مزاحمت غیر مؤثر انداز سے آگے بڑھ رہی ہے اور حافظ نعیم کی مزاحمت کے نیچے دب رہی ہے۔
ہوسکتا ہے کہ آپ اس بات سے اتفاق نہ کریں۔