کرپٹو کرنسی بٹ کوائن نے جمعرات کی صبح 112,000 امریکی ڈالر کی نئی تاریخی بلند ترین سطح کو چھو لیا، جس کے بعد سرمایہ کار کرپٹو سے جڑی کمپنیوں کے شیئرز کی جانب تیزی سے متوجہ ہو رہے ہیں۔
یاہو فنانس کی سینئر بزنس رپورٹر اینس فیرے اور اسٹاک بروکرز ڈاٹ کام کی ڈائریکٹر آف انویسٹر ریسرچ جیسیکا انسکپ نے “اوپننگ بِڈ” پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ رواں سال کرپٹو سے منسلک تمام اسٹاکس، خصوصاً بٹ کوائن سے متعلقہ، غیر معمولی تیزی سے آگے بڑھے ہیں۔
جیسیکا کا کہنا تھا کہ بٹ کوائن گزشتہ کئی ماہ سے 10,000 ڈالر کے اندرونی فرق سے ٹریڈ کر رہا تھا، جو کہ ایک طرح سے اس کے مستحکم ہونے کا اشارہ ہے۔ اس میں کمی آتی ہوئی وولیٹیلیٹی ایک مثبت اشارہ ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ حالیہ دنوں میں اسٹیبل کوائنز اور اسٹاکس کی ٹوکنائزیشن جیسے عوامل بھی کرپٹو انڈسٹری کو نئی جہت دے رہے ہیں۔
انسکپ نے انکشاف کیا کہ آئندہ ہفتہ امریکی کانگریس میں کرپٹو سے متعلق تین اہم بلز پر غور متوقع ہے، جن میں “جینئیس ایکٹ” بھی شامل ہے، جو سینیٹ سے منظور ہونے کے بعد اب ایوان نمائندگان میں زیر بحث آئے گا۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر یہ قوانین منظور ہو جاتے ہیں تو یہ کرپٹو مارکیٹ کے لیے ایک نیا بڑا محرک بن سکتے ہیں۔
پروگرام کے میزبان نے سوال اٹھایا کہ اگرچہ کرپٹو میں تیزی جاری ہے، لیکن کیا یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا؟ یا یہ کرپٹو سرمایہ کاروں کے لیے ایک ممکنہ خطرہ بھی بن سکتا ہے؟
جیسیکا کا کہنا تھا کہ یہ ہر سرمایہ کار کی رسک برداشت کرنے کی صلاحیت پر منحصر ہے۔ بٹ کوائن ایک ہائی رسک اثاثہ ہے اور اگرچہ اس کی وولیٹیلیٹی کم ہوئی ہے، پھر بھی یہ مارکیٹ میں ایک غیر یقینی عنصر رکھتا ہے۔
انسکپ نے ایک دلچسپ پہلو کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر کے سرمایہ کار اب امریکی مارکیٹس تک رسائی کے لیے کرپٹو کا استعمال کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے امریکی بینکوں کے ذریعے سرمایہ منتقل کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے، جب کہ کرپٹو کے ذریعے فنڈنگ نسبتاً آسان ہے۔ اسی لیے 24/7 ٹریڈنگ کے رجحان میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور یہ رجحان کرپٹو کی مانگ کو مزید بڑھا رہا ہے۔