پاکستان میں چینی کی قیمت کا ایک بار پھر آسمان سے باتیں کرنا عام آدمی کے لیے ناقابل برداشت ہو چکا ہے۔ لاہور،کراچی،پشاور اور دیگر بڑے شہروں میں چینی 190 سے 200 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ صرف دو ہفتے پہلے یہی چینی 170 روپے میں دستیاب تھی۔
حکومتی دعووں اور اقدامات کے باوجود چینی کی قیمتوں میں استحکام نہیں آیا بلکہ لگتا ہے جیسے منڈی میں بے لگام منافع خوروں اور بااثر شوگر مافیا کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہو اوریہ سب کچھ پہلی بار نہیں ہو رہا۔ چینی کے بحران کی تاریخ دہائیوں پر محیط ہے لیکن ہر بار یہی دیکھا گیا ہے کہ وقتی واویلا،کمیٹیاں،ٹاسک فورسز،سبسڈی،درآمدات یا برآمدات کے فیصلے کیے گئے اور چند ہفتوں یا مہینوں بعد سب کچھ پھر وہیں آ کر کھڑا ہو جاتا ہے جہاں سے چلا تھا۔
شوگر مافیا کو کوئی خطرہ نہ پہلے کبھی ہوا تھانہ ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ نہ ہی مستقبل میں ہوگا۔قیمتوں کا اتار چڑھاؤ بھی ان ہی کی مرضی سے ہوتا ہے۔ یہ وہی طبقہ ہے جسے ریاستی اشیرباد حاصل ہے، جو ایوانِ اقتدار تک رسائی رکھتا ہے اور جس کے ہاتھ میں عوام کی معیشت کا گلا ہے۔
صدر، وزیر اعظم، وزراء اور ان کے خاندان جب خود شوگر مافیا کا حصہ بن جائیں تو پھر عوام کس در سے انصاف مانگیں؟یہ مافیا چینی کی قیمت میں محض ایک روپیہ فی کلو اضافہ کر کے اربوں روپے ہڑپ کر جاتا ہے اور عام آدمی فاقوں پر مجبور ہو جاتا ہے، جب حاکم ہی لٹیروں کا روپ دھار لیں تو مظلوم کی آہ کس آسمان تک پہنچے؟
تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں جب عمران خان نے اپنے قریبی ساتھی جہانگیر ترین کے خلاف انکوائری کی منظوری دی تو کم از کم ایک امید بندھی کہ شاید طاقتور کا بھی احتساب ممکن ہے لیکن بدقسمتی سے یہ مافیا اتنا طاقتور اور جڑوں میں پیوست ہو چکا ہے کہ کوئی بھی اس کے خلاف قدم اٹھانے سے پہلے ہزار بار سوچتا ہے۔
یہی وہ ناسور ہے، جو ریاستی نظام کو اندر سے چاٹ رہا ہے اور جس کے سامنے حکمران طبقہ بے بس، بے حس اور شریک جرم بھی ہے۔ حالیہ دنوں حکومت نے چینی کی قیمتوں پر قابو پانے کے لیے پانچ لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کا اعلان کیا اور باقاعدہ ٹینڈر بھی جاری کر دیا گیا۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا، جب مقامی مارکیٹ میں چینی کی قلت ہے اور قیمتیں بے قابو ہو رہی ہیں۔
بادی النظر میں یہ قدم غیر منطقی،ناقابل فہم اور عوام دشمن محسوس ہوتا ہے، جب مقامی صارف چینی کو 200 روپے میں خریدنے پر مجبور ہے،ایسے میں برآمدات کا فیصلہ کس منطق کے تحت کیا گیا؟کیا یہ صرف چینی مافیا کو مزید منافع کمانے کا موقع فراہم کرنے کی ایک اسکیم ہے؟یا پھر پس پردہ کچھ اور سودے بازی چل رہی ہے ؟
ماضی قریب میں اگر نگاہ دوڑائی جائے تو 2020 کا چینی بحران سب کو یاد ہو گا۔ اس وقت بھی چینی کی قیمت 50 سے 90 روپے تک پہنچ گئی تھی اور حکومت نے چینی برآمد کی اجازت دے کر سبسڈی فراہم کی تھی۔ اس بحران پر بننے والے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ چینی مافیا نے حکومت کی لاعلمی یا ملی بھگت سے اربوں روپے کا منافع کمایا۔
شریف خاندان،جہانگیر ترین،خسرو بختیار،مونس الٰہی جیسے نام سامنے آئے لیکن نتیجہ کیا نکلا؟سب کچھ پھر مٹی میں دفن ہو گیا،رپورٹ فائلوں کی زینت بنی رہی اور عوام کو پھر قربانی کا بکرا بنا دیا گیا۔
چینی کی قیمت پر کنٹرول کیوں نہیں ہو پاتا؟اس سوال کا جواب نہایت سادہ ہے اور وہ ہے طاقتور طبقے کی اجارہ داری۔ ملک میں درجنوں شوگر ملیں ہیں،جن میں اکثریت کا براہِ راست تعلق سیاستدانوں،وزیروں،بااثر خاندانوں یا ان کے فرنٹ مین سے ہے۔ پالیسی وہی بناتے ہیں،قیمت وہی طے کرتے ہیں اور برآمدات یا درآمدات کے فیصلے بھی انہی کے مفاد میں ہوتے ہیں۔ عام صارف،مزدور،سفید پوش طبقہ ان کے فیصلوں کا شکار بنتا ہے، نہ کوئی شنوائی ہوتی ہے،نہ انصاف ملتا ہے۔
چینی پاکستان میں لگژری نہیں بلکہ بنیادی ضرورت ہے، چاہے چائے کا کپ ہو یا بچوں کا دودھ،افطار کی روایتی افطاری ہو یا عام کھانے پینے کے پکوان،چینی ہر گھر کی ضرورت ہے۔ جب ایسی بنیادی شے پر بھی مافیا کنٹرول حاصل کرے اور حکومت بے بس یا خاموش تماشائی بن جائے تو یہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ ملک میں معاشی نظام مفلوج ہو چکا ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان،جو ایک زرعی ملک ہے،جس کی زمینیں گنا پیدا کرنے کے لیے موزوں ہیں،جہاں ہزاروں ایکڑ پر گنا کاشت کیا جاتا ہے،وہ چینی کی کمی کا شکار کیسے ہو سکتا ہے؟حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ پیداوار کا نہیں،تقسیم اور ذخیرہ اندوزی کا ہے۔ چینی ملز اپنے منافع کے لیے پیداوار کو جان بوجھ کر روک لیتی ہیں،مارکیٹ میں قلت پیدا کی جاتی ہے،پھر قیمت بڑھا کر عوام کی جیب سے اربوں نکالے جاتے ہیں۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ عدالتیں،نیب،ایف آئی اے،ایف بی آر جیسے ادارے بھی چینی مافیا کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ شوگر کمیشن رپورٹ پر کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔جن سیاست دانوں پر الزامات تھے وہ آج بھی قومی اسمبلی،کابینہ یا مختلف پالیسی ساز اداروں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ عوام کا اعتماد ان اداروں پر سے اٹھتا جا رہا ہے۔
عوام بار بار سوال کرتے ہیں،اگر شوگر کمیشن رپورٹ ایکشن لینے کے لیے ناکافی ہے تو پھر تحقیقاتی رپورٹ کا مقصد کیا تھا؟کیا وہ صرف عوام کو دھوکہ دینے کا ایک حربہ تھی یا مافیا کے ساتھ سودے بازی کا ذریعہ؟یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب آج بھی ادھورے ہیں۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب بھی چینی کی قیمت بڑھتی ہے،میڈیا پر وقتی شور مچتا ہے،وزرا پریس کانفرنس کرتے ہیں،عدالتیں سوموٹو نوٹس کی دھمکیاں دیتی ہیں لیکن نتیجہ ہمیشہ صفر نکلتا ہے۔ جب تک اس مافیا کو بے نقاب کر کے ان کے خلاف عملی اقدامات نہیں کیے جاتے،تب تک صورتحال بہتر نہیں ہو سکتی۔
بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کی چینی پالیسی متنازع رہی ہے۔ ایک جانب ہم قلیل مدتی مالی فائدے کے لیے چینی برآمد کرتے ہیں،دوسری جانب چند ماہ بعد درآمد پر اربوں روپے خرچ کر کے خزانے پر بوجھ ڈالتے ہیں۔ یہ سب کچھ دراصل ایک ہی کھیل کا حصہ ہے،جس کا مرکزی کردار چینی مافیا ہے اور حکومت محض ایک تماشائی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ چینی کے معاملے پر طویل المدتی پالیسی بنائی جائے،جس میں شفافیت،احتساب اور عوامی مفاد کو ترجیح دی جائے۔ گنے کے کاشتکاروں کو بروقت ادائیگی،ملوں کی کڑی نگرانی،ذخیرہ اندوزی کے خلاف فوری کارروائی اور چینی کی قیمت پر مستقل کنٹرول،یہ تمام اقدامات ناگزیر ہیں۔ بصورت دیگر ہر سال چینی کا بحران نمودار ہوتا رہے گا اور عوام کی جیب کٹتی رہے گی۔
حکومت کو چاہیے کہ چینی کی برآمد کے فیصلے پر نظرِ ثانی کرے۔ اس وقت ملکی ضروریات کو ترجیح دینا زیادہ اہم ہے۔ اگر برآمدات ناگزیر ہیں تو صرف اس صورت میں اجازت دی جائے، جب مقامی مارکیٹ میں قیمت مستحکم ہو اور وافر مقدار میں چینی دستیاب ہو۔بصورت دیگر یہ اقدام عوام دشمنی کے مترادف ہو گا۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ صرف چینی نہیں بلکہ تمام بنیادی اشیائے ضرورت،آٹا، دال، گھی، تیل، چاول، دودھ پر سے مافیا کا تسلط ختم کیا جائےکیونکہ جب تک یہ اجارہ داری قائم ہے، عوام کو ریلیف ملنے کا کوئی امکان نہیں۔ اگر حکومت واقعی سنجیدہ ہے(جو بظاہر دکھائی نہیں دیتی)تو اسے قانون کی طاقت سے ان عناصر کا محاسبہ کرنا ہو گا،جنہوں نے ریاست کو کاروباری منڈی میں بدل دیا ہے،جہاں صرف طاقتور کا فائدہ اور غریب کی بربادی لکھی جاتی ہے۔
عوام اب شعور رکھتی ہے،سوشل میڈیا کے ذریعے ہر ظلم بے نقاب ہوتا جا رہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایوانِ اقتدار میں بیٹھے لوگ اس پکار کو سننے کے لیے تیار ہیں؟یا وہ بھی چینی مافیا کی میٹھی کرسی پر بیٹھے ہیں،جس سے اٹھنا ان کے لیے ناممکن ہو چکا ہے؟؟؟