Follw Us on:

پاکستان میں پچھلے پانچ سالوں میں ایچ آئی وی سے ہونے والی اموات میں 400 فیصد اضافہ، گلوبل فنڈ کہاں استعمال ہوا؟

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Hiv.
رپورٹ کے مطابق پاکستان کو 2003 سے اب تک گلوبل فنڈ کی جانب سے 1.1 ارب امریکی ڈالر سے زائد امداد دی جا چکی ہے۔ (فوٹو: ایڈز میپ)

پاکستان میں ایچ آئی وی سے ہونے والی اموات میں پچھلے پانچ سالوں کے دوران 400 فیصد تک خطرناک اضافہ ہوا ہے، جبکہ نئی انفیکشنز میں 64 فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

گلوبل فنڈ کے سخت لہجے میں جاری کردہ آڈٹ رپورٹ میں اس صورت حال کو ایک سنگین ناکامی قرار دیا گیا ہے، جس کی بنیادی وجوہات میں ناقص انتظام، طویل تاخیر اور نگران نظام کی ناکامی شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کو 2003 سے اب تک گلوبل فنڈ کی جانب سے 1.1 ارب امریکی ڈالر سے زائد امداد دی جا چکی ہے، جن میں حالیہ گرانٹ سائیکل میں ہی تقریباً 50 کروڑ ڈالر شامل تھے۔ اس کے باوجود ملک میں ایچ آئی وی، ٹی بی اور ملیریا سے نمٹنے کی کوششیں ناکارہ نظام، کمزور خریداری کے طریقہ کار اور مالی بے ضابطگیوں کے باعث شدید متاثر ہو رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کا فیصلہ بھاری: ہزاروں افریقی ایچ آئی وی سے بچاؤ کی دوا سے محروم

آڈٹ رپورٹ جنوری 2021 سے دسمبر 2023 تک کے عرصے پر مبنی ہے اور اس میں پاکستان کے امدادی نظام کو مکمل طور پر “غیر مؤثر” قرار دیا گیا ہے۔ سیاسی عدم استحکام، درست سمت کے تعین میں ناکامی اور قیادت میں مسلسل تبدیلیوں نے ان جان بچانے والے پروگراموں کی مؤثر عملداری کو مفلوج کر دیا ہے۔

Hiv..
آڈٹ رپورٹ جنوری 2021 سے دسمبر 2023 تک کے عرصے پر مبنی ہے۔ (فوٹو: ایڈز میپ)

اس بحران کا مرکز کامن مینجمنٹ یونٹ (CMU) ہے، جو وزارت قومی صحت کے تحت کام کرتا ہے۔ اسے 1.67 کروڑ امریکی ڈالر سے زائد کی امداد دی گئی، لیکن یونٹ اپنی بنیادی ذمہ داریاں نبھانے میں مکمل طور پر ناکام رہا۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2018 میں نئی ایچ آئی وی انفیکشنز کی تعداد 7,741 تھی، جو 2023 میں بڑھ کر 12,731 ہو گئی۔ اسی عرصے میں ایڈز سے ہونے والی اموات 2,200 سے بڑھ کر 11,000 تک پہنچ گئیں۔ ٹی بی کے حوالے سے 2023 میں تقریباً 70 فیصد ڈرگ ریزسٹنٹ کیسز کی تشخیص ہی نہ ہو سکی۔ ٹی بی کی شرح 277 فی ایک لاکھ آبادی تک پہنچ چکی ہے، جو 2010 کے بعد سب سے زیادہ ہے، حالانکہ گلوبل فنڈ نے پچھلی گرانٹ میں اس مد میں 16.5 کروڑ ڈالر فراہم کیے۔

گرانٹ بجٹ کا تقریباً 60 فیصد خریداری اور ترسیل کے نظام پر خرچ کیا گیا، لیکن یہ نظام انتہائی منتشر اور ناقص رہا۔ 64 فیصد مراکز پر ایچ آئی وی ٹیسٹ کٹس کی کمی پائی گئی، بعض مقامات پر زائد المیعاد کٹس بھی بھیجی گئیں۔ تقریباً 3.7 لاکھ ملیریا مچھر دانیاں، جن کی مالیت 9 لاکھ ڈالر تھی، غائب ہو گئیں۔ مقامی خریداری کے معاہدے، جن کی مالیت 4.3 ملین ڈالر تھی، اوسطاً دو سال کی تاخیر کا شکار رہے۔

کامن مینجمنٹ یونٹ کی داخلی خرابیاں رپورٹ میں کھل کر سامنے آئیں۔ تین برسوں میں دس نیشنل کوآرڈینیٹرز، پانچ ٹی بی اور چار ایچ آئی وی ڈپٹی کوآرڈینیٹرز تبدیل ہوئے۔ خریداری کے کلیدی عہدے پورے آڈٹ کے دوران خالی رہے، جبکہ بایومیٹرک حاضری کے مطابق ملازمین کو ان دنوں کی تنخواہیں بھی دی گئیں جب وہ حاضر ہی نہ تھے۔

Global fund
گرانٹ بجٹ کا تقریباً 60 فیصد خریداری اور ترسیل کے نظام پر خرچ کیا گیا۔ (فوٹو: ایڈز میپ)

پاکستان گلوبل فنڈ کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کے تحت مالی اشتراک کی شرائط پوری کرنے میں بھی ناکام رہا اور 116 ملین ڈالر کی کمی کا سامنا ہے۔ 2022 سے 2025 تک وفاقی سطح پر ایچ آئی وی، ٹی بی اور ملیریا کے لیے مختص فنڈز میں سے صرف پانچ فیصد استعمال ہو سکے۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان تعاون کا فقدان، کمزور ڈیٹا سسٹمز اور نگران نظام میں خامیاں اس بحران کو مزید گہرا کر رہی ہیں۔

اگرچہ مرسی کور اور اندس ہسپتال جیسے پرنسپل ریسیپینٹس نے مالی نظام میں شفافیت برقرار رکھی، لیکن رپورٹ کے مطابق مجموعی سطح پر بھرتیوں میں غیر شفافیت، انٹرویو اور شارٹ لسٹنگ کے بغیر عملہ بھرتی کیا جانا، اور خریداری و تنخواہوں میں بے ضابطگیاں عام رہیں۔ 3.7 ملین ڈالر کے ایسے معاہدے بھی سامنے آئے جو بغیر مارکیٹ سروے یا ٹینڈر کے طے پائے۔

رپورٹ میں نشاندہی کے باوجود گلوبل فنڈ کے سیکریٹریٹ نے متعدد نکات پر اصلاحی اقدامات کو رسمی طور پر نافذ نہیں کیا، تاہم پاکستانی حکام کے ساتھ نظام بہتر بنانے، ٹی بی کی تشخیص کے لیے سیمپل ٹرانسپورٹ پلان ترتیب دینے اور نگرانی کے طریقہ کار پر نظر ثانی کا وعدہ کیا گیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ کامن مینجمنٹ یونٹ 2021–2023 کے گرانٹ سائیکل میں ایچ آئی وی گرانٹ کا براہ راست نگران ادارہ نہیں تھا، لیکن اس کی کوآرڈینیشن اور حکمت عملی سازی کی کمزوریوں نے قومی سطح پر ایچ آئی وی ردعمل کو بری طرح متاثر کیا۔ نائی زندگی ٹرسٹ اور اقوام متحدہ کا ترقیاتی ادارہ ایچ آئی وی گرانٹس کے پرنسپل ریسیپینٹس تھے، لیکن سی ایم یو کو قومی پروگرام کی رہنمائی اور صوبوں سے ہم آہنگی کی اہم ذمہ داری سونپی گئی تھی، جس میں وہ ناکام رہا۔

یہ رپورٹ ملک کے صحت کے نظام کے لیے ایک سنجیدہ وارننگ ہے، اگر فوری اور جامع اصلاحات نہ کی گئیں تو پاکستان عالمی حمایت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا اور ایک مزید گہرے صحت کے بحران میں دھکیل دیا جائے گا۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس