اہل پاکستان کو مبارک ہو، وزیراعظم نے ملک کی سڑکوں پر پڑھے لکھے ڈرائیورز لانے کا فیصلہ کیا ہے، صرف پڑھے لکھے ہی نہیں اپنی اپنی جماعتوں میں ٹاپ کرنے والے۔ اب گریجوایٹ ٹائی شائی لگائے نوجوان لیڈرشپ کرتے نہیں رکشے چلاتے نظر آئیں گے۔
بھلا سیاست، ہائی فائی اداروں میں ان نوجوانوں کا کیا کام؟ ان کے دلوں میں لیڈری کی خواہش کس نے پیدا کردی؟ یہ شیدے، یہ نورے کا پتر کیا ہم پہ حکمرانی کرے گا، مزدوروں کی اولاد کا کیا کام کہ وہ دفتروں میں بیٹھے۔
شہباز شریف صاحب جب ’خادم اعلیٰ‘ کہلاتے تھے تب 2014 میں انہوں نے صوبے کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو ٹیکسیاں دیں اب خادم پاکستان ہیں تو رکشے دینگے۔
رکشہ ڈرائیور کون بنے گا؟ اس کا بھی طے ہوچکا۔ وزیر اعظم صاحب نے ہدایت کی ہے کہ یہ رکشہ اس خوش نصیب کو ملے گا جو اپنی کلاس میں ٹاپر ہوگا۔
وزیرِاعظم صاحب نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ حکومت روزگار کیلئے ایسے لوگوں کو الیکٹرک رکشے اور لوڈر فراہم کرے گی جو بے روزگار ہیں۔
ابھی تک یہ بات طے ہونا باقی ہے کہ یہ سہولت اٹھانے والے درخواست جمع کروانے کے لیے کتنے پیسے ادا کریں گے۔ کیونکہ جب پنجاب میں یہ سکیم شروع کی گئی تھی تو اس کی شرائط میں سے پہلی شرط درخواست کے لیے 12000 روپے رکھے گئے تھے۔ اور درخواستگزار کی عمر 35 سال سے کم مقرر کی گئی تھی۔
اب بھی یہی ہوگا، درخواست گزار بوڑھا نہ ہو۔ یہ بھی خیال رکھا جائے گا کہ وہ بینک ملازمین کے ناز نخرے اٹھانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔
وزیر اعظم صاحب ایسے کام ہی کیوں جاتے ہیں جو شاباش کے بجائے ہزیمت کا باعث بن جاتے ہیں،اپوزیشن کے دباؤ میں آکر اپنی ساکھ کیوں خراب کرتے ہیں؟
بیروز گاری اور غربت کو ختم کرنا ہے تو غریب کی جگہ رہ کر فیصلے کریں، ایسے آفیسرز سے پالیسیاں بنوائیں جس نے غربت کے دن دیکھے ہوں، نوجوانوں کو بھیک یا قرض نہ دیں نوکریاں دیں،لاکھوں نوجوان ڈگریاں لے کر دھکے کھاتے پھرتے ہیں ان کا صحیح استعمال کریں، ان کو ہنرمند بنائیں، آئی ٹی میں پاکستان ترقی کررہا تھا مگر طرح طرح کی پابندیاں لگا کر اس ترقی کو بریک لگادی گئی۔
ذہین اور ٹاپر نوجوانوں کو رکشوں پر بٹھانے کے بجائے سرکاری اداروں میں بٹھائیں،ان کو ہنر دیں، ہیروں کو گندگی کے ڈھیر میں جانے سے پہلے محفوظ کرنے کا اہتمام کیا جائے، زنگ لگتی جوانیوں کو قیادت کے قابل بنایا جائے۔
یہ اقبالؒ کے شاہین، یہ قائدؒ کے فرزند آج محسنوں کو تلاش کر رہے ہیں آپ ہی ان کے محسن بن جائیں، آپ سے کی جانے والی نفرت،محبت بن جائے گی،گو گو کی آوازیں ویلکم،خوش آمدید بن جائیں گی، چور چور کہنے والے آپ کو صادق اور امین سمجھنے لگیں گے۔
میاں صاحب!مانا کہ آپ نے پل بنائے،سڑکوں کے جال بچھائے، پاور پلانٹ بھی لگا رہے ہیں، ٹیکسٹائل سٹی، صنعتی شہر بھی بسا رہے ہیں، پاکستان کو ایشین ٹائیگر بھی بنانا چاہتے ہیں، یہ سب کس کام کے جب اس سے فائدہ اٹھانے والے ہی نہ رہیں گے۔
ہم نے تو سنا ہے کہ آج تک جس ملک نے بھی ترقی کی ہے اس کے حکمرانوں نے سب سے پہلے اپنی رعایا کے بارے سوچا،اس کی ضرورت کے مطابق کام کیے، جاپان نے اپنی قوم کو ہنر مند بنایا تو اسے اپنی صلاحیتیں کھپانے کا سامان بھی فراہم کیا، آپ نے ٹوکیو میں ’او او‘ کی آوازوں کے بارے میں خود بتایا۔،
بھوک سے مرتے چینیوں کا چین آج سب سے بڑی معیشت بنا تو اس نے بھی عام آدمی کو ترقی دی، ملایشیاء،ترکیہ کی مثالیں ہم سب کے سامنے ہیں۔
میاں صاحب! معاشرتی بگاڑ،دہشتگردی کی وجہ کوئی اور نہیں بھوک ہے،پیاس ہے،مایوسی ہے،یہ پیٹ کا جہنم جب بھر جائیگا تو ملک جنت بن جائے گا۔ کوئی اچھے کام کریں، ایٹم بم بنانے والوں، فضاؤں کو مسخر کرنے والوں کو سڑکوں پر لوڈر رکشے چلانے پر مجبور مت کریں۔
ویسے آپ کو اس پر داد تو بنتی ہے پہلے فیل ہونے والوں کو رکشے ملتے تھے اب ٹاپ کرنے والوں کو بھی رکشے ملیں گے۔ حکومت نے مساوات کی کیا کمال مثال قائم کی ہے۔
نوٹ: بلاگر کی ذاتی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ ایڈیٹر