Follw Us on:

غیرت کے نام پر قتل کے بڑھتے واقعات: پاکستان پرانی روایات سے کب آزاد ہوگا؟

مادھو لعل
مادھو لعل
Honor killing
2024 میں 346 افراد غیرت کے نام پر قتل کیے گئے۔ (فوٹو: گوگل)

یہ سال 2025 ہے، مگر پاکستان کے مختلف علاقوں میں اب بھی لڑکیوں کا زندہ دفن ہونا، بھائی کے ہاتھوں بہن کا قتل اور باپ کے ہاتھوں بیٹی کی زندگی کا خاتمہ، معاشرے کے “غیرت” کے اصولوں کے نام پر جاری ہے۔  یہ واقعات جدید وقت کے ساتھ ساتھ کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ رہے ہیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے مطابق 2024 میں 346 افراد غیرت کے نام پر قتل کیے گئے، جن میں اکثریت خواتین کی تھی اور تقریباً 185 مرد بھی مارے گئے۔

سوال یہ ہے کہ یہ غیرت ہے یا جہالت؟ یہ روایت ہے یا درندگی اور سب سے اہم یہ کہ پاکستان ان فرسودہ روایات سے کب آزاد ہوگا؟

غیرت کے نام پر قتل ہونے والوں کی تعداد انتہائی تشویشناک ہے۔ اگر گزشتہ برسوں کے اعداد وشمار کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ  2023 میں 490 رپورٹ شدہ کیسز اور 2022 میں 590 کیسز ریکارڈ کیے گئے۔

معاشرتی کارکن فرزانہ باری کہتی ہیں کہ غیرت کے نام پر قتل ایک سماجی ناسور ہے۔ جب تک عورت کو برابر کا انسان نہیں سمجھا جائے گا، یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ عورتوں کو خاندان کی عزت سمجھا جاتا ہے، ان کے فیصلے نہیں۔

Honour killing
2023 میں 490 رپورٹ شدہ کیسز اور 2022 میں 590 کیسز ریکارڈ کیے گئے۔ (فوٹو: گوگل)

کراچی کے علاقے قائدآباد میں دسمبر 2024 میں رضوانہ نامی ایک 40 سالہ خاتون کو ان کے سسرال والوں نے گولیاں مار کر قتل کیا، جب انہیں ان کی حرکتیں “غیرت” کے خلاف محسوس ہوئیں۔ پولیس کا کہنا تھا کہ جیسے ہی ان کے سسر اور ساس کو خاندان کی ازدواجی قدر پر شبہ ہوا، انہوں نے فیصلہ کیا کہ یہ خاتون ساکھ کو دھبہ لگا رہی ہے۔

اسی طرح اسلام آباد میں جون 2025 میں 17 سالہ ثناء یوسف، جو ٹِک ٹاک پر فعال تھیں، فائرنگ کا نشانہ بنی۔ مقتولہ کا ملزم ان کا کزن تھا اور ریاست ابتدائی شواہد کی روشنی میں اسے گرفتار کر چکی ہے۔ اس واقعہ نے پورے ملک میں شدید غم و غصہ پیدا کیا اور صحت مند احتجاج بھی ہوا، ‎جہاں لوگوں نے حکومت اور عدلیہ سے سخت ایکشن کا مطالبہ کیا ‎ ۔

بالآخر بلوچستان کے درگاہی ضلع میں نیا ویڈیو منظر عام پر آیا، جہاں شادی شدہ جوڑے بانو بی بی اور احسن اللہ کو دن میں عوامی منظرنامے پر گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا، صرف اس لیے کہ انہوں نے خاندان کی مرضی کے خلاف شادی کی تھی یا یہ کہ وہ دونوں شادی شدہ ہونے کے باوجود بھاگے تھے، مگر قتل کا اختیار کس نے دیا؟

اس کیس میں 13 افراد گرفتار ہوئے اور حکام مزید ملزمان کی تلاش میں ہیں۔ اس واقعے نے پورے پاکستان میں نئی بحث کھڑی کر دی کہ غیرت کے نام پر انسانی جانوں کا ضیاع کیسے روکا جائے۔

یہ صرف کسی ایک صوبے یا شہر کی کہانی نہیں، پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بھی صورتحال کم و بیش یکساں ہے۔ سندھ کے ضلع شکارپور میں ایک نوجوان جوڑے کو کاری قرار دے کر مارا گیا۔ بلوچستان کے علاقے نصیرآباد میں ایک ماں نے اپنی ہی بیٹی کو زہر دے کر مار دیا، کیونکہ وہ کسی غیر مرد سے بات کر رہی تھی۔

مزید پڑھیں: راولپنڈی: غیرت کے نام پر ایک اور لڑکی قتل، آٹھ افراد گرفتار

ایسے افسوسناک  واقعات کو سن کر دل دہل جاتا ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ اکثریت ایسے واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے اور اگر ہوتے بھی ہیں تو “غیرت” کی آڑ میں قانونی پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

سستین ایبل سوشل ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) کی رپورٹ کے مطابق 2024 میں پاکستان میں مجموعی طور پر 32,617 جنس پر مبنی تشدد (جی بی وی) کے کیس رپورٹ ہوئے، جن میں 5339 ریپ کے واقعات، 24439 اغوا و اختطاف، 2238 گھریلو تشدد اور 547 غیرت کے نام پر قتل   کے کیسز شامل ہیں۔

تیس ہزار سے زائد کیسز تو رپورٹ ہوئے، مگر ان کیسز میں انصاف تقریباً نایاب تھا۔ کہیں انصاف ملا تو کہیں برائے نام ملا اور کہیں تو دم ہی توڑ گیا۔ سندھ اور پنجاب میں محض 0.5فیصد سزائیں ملیں، اغوا کے معاملات میں صرف 0.1فیصد اور گھریلو تشدد کے صرف 1.3فیصد کیسز میں فیصلے ہوئے۔

Qandeel baloch
سندھ کے ضلع شکارپور میں ایک نوجوان جوڑے کو کاری قرار دے کر مارا گیا۔ (فوٹو: گوگل)

اگر پنجاب کی بات کی جائے تو اس صوبے میں 225 غیرت قتل کیس رپورٹ ہوئے، مگر صرف 2 سزائیں ہوئیں۔ اسی طرح  سندھ میں صرف ایک غلط کیس میں سزا ملی اور اسلام آباد میں کسی غیرت قتل کیس میں کوئی سزا نہیں دی گئی۔

بلادِ غیرت اصلاحات کے تحت 2016 میں پارلیمنٹ نے قانون پاس کیا کہ  یعنی کریمنل لاء ایکٹ ، جس نے سابقہ قانونی کوتاہیوں کو دور کرتے ہوئے خواہ متاثرہ خاندان سزا معاف کر دے ملزم کو کم از کم 14 سال یا عمر قید کی سزا لازمی قرار دی جائے۔

اگرچہ یہ قانون پاس تو ہوگیا، مگر اگلہ مرحلہ جو کہ عمل درآمد کا ہوتا ہے، وہ ممکن نہیں ہوسکا۔ وجہ یہ ہے کہ قانونی عمل دخل کی کمی، پولیس کی ناقص تحقیق، عدالتی تاخیر اور خاندانوں کا سمجھوتہ اس قانون کو مؤثر نہیں ہونے دیتا۔ سندھ میںسیکشن-131، جو غیرت قتل کو غیر قابل معافی جرم قرار دیتا ہے  تقریباً 70فیصد کیسز میں نظر انداز کی جا رہی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ قتل کرنے والے اکثر معاف کر دیے جاتے ہیں یا آزاد ہو جاتے ہیں، جیسا کہ سال 2019 میں قندیل بلوچ کے بھائی کا کیس ہے، جہاں انہیں بعد ازاں والدین کی معافی پر بری کر دیا گیا باوجود کہ قانون پہلے سے سخت تھا۔

ایڈووکیٹ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ مظفرگڑھ محمد تقویم چانڈیو کہتے ہیں کہ قاتل اکثر وارث ہی ہوتا ہے،اور جب مقتول کے اہل خانہ ہی قاتل کو معاف کر دیتے ہیں، تو کیس ختم ہو جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شوہر کے ہاتھوں ٹک ٹاکر قتل، لاش لوڈر رکشے پر اسپتال لائی گئی

سندھ ہائی کورٹ نے بھی غیرت کے نام پر قتل کو انتہائی گھمبیر گھریلو تشدد قرار دیا اور ریاست سے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا تاکہ یہ وحشیانہ اور مکروہ روایت بند کی جا سکے۔

اس ناسور کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دیہی اور شہری علاقوں میں تعلیم و شعور کی بنیاد پر آگاہی دی جائے، مذہبی رہنماؤں کا واضح مؤقف ہونا چاہیے کہ قتل انسانی جرم ہے، میڈیا کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ وہ جغرافیائی بیانیہ بدلنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ مزید یہ کہ صوبائی سطح پر ویمن پروٹیکشن سینٹرز اور تحفظاتی نظام کو دیہی علاقوں تک وسعت دینا بھی ضروری ہے۔

ایسے دلخراش واقعات آئے روز ٹی وی یا موبائل اسکرین پر پڑھنے کو ملتے ہیں، جس کے بعد ہر عام مہذب شہری یہ سوال کرتا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کیا واقعی جائز ہے اور کیا ہم واقعی 21ویں صدی میں زندہ ہیں؟

تو ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ قتل ہر حالت میں  قتل ہے اور ایک انسان کا قتل تمام انسانیت کا قتل ہے۔ جب تک “عزت” کے تصور کو انسانی وقار کے معیار پر ٹولا نہیں جائے گا، تب تک ہم خود کو اس عذاب سے آزاد نہیں کر پائیں گے۔

Stop honour killings
جہاں عورت کی زندگی خاندان کی عزت سے کم قیمتی ہو، وہاں انصاف ممکن نہیں۔ (فوٹو: گوگل)

ایڈووکیٹ محمد تقویم چانڈیو کہتے ہیں کہ غیرت کے نام پر قتل دراصل غیرت کے لبادے میں چھپا بزدلانہ جرم ہے۔ اس وقت پاکستان کو غیرت کے نام پر قتل سے تبھی آزادی حاصل ہو سکتی ہے، جب سماجی تبدیلیوں کے ذریعے غیرت کو انسانی قدر کے تقاضوں کے مطابق معنی دیے جائیں۔

واضح رہے کہ غیرت کے نام پر قتل صرف ایک فرد کی جان نہیں لیتا بلکہ پورے معاشرے کو پیچھے دھکیلتا ہے۔ جب تک ہم “عزت” اور “غیرت” کے مفہوم کو انسانیت کے معیار پر نہیں تولیں گے، تب تک ہم آزاد نہیں۔

معروف لکھاری فاطمہ بھٹو کا ایک قول یہاں یاد آتا ہے کہ”جہاں عورت کی زندگی خاندان کی عزت سے کم قیمتی ہو، وہاں انصاف ممکن نہیں۔”

پاکستان ایک عظیم ملک ہے، مگر اس عظمت کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان خون آشام روایات سے چھٹکارا حاصل کریں جو انسانیت کے چہرے پر داغ ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل، دراصل غیرت کے لبادے میں چھپا بزدلانہ جرم ہے۔

مادھو لعل

مادھو لعل

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس