جب کسی قوم کے زخموں پر نمک چھڑکنے والا اس کا حکمران ہو تو شفا کے خواب بھی گناہ بن جاتے ہیں۔ جب مظلوم کی فریاد کو اقتدار کی میز پر تمسخر بنا دیا جائے تو عدل کا ترازو زمین پر گر جاتا ہے۔ ابھی کل ہی قوم نے یہ خبر سنی تھی کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے اعظم نذیر تارڑ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ یہ اعلان بظاہر ایک امید کی کرن تھا، ایک برسوں سے جلتے دل کے لیے مرہم جیسا لیکن اُس سے اگلے لمحے نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے واشنگٹن میں بیٹھ کر جو کہا، وہ صرف ایک بیان نہیں تھا، یہ قوم کے شعور کی توہین، قربانیوں کی تذلیل اور مظلومیت کا قتل تھا۔
اسحاق ڈار نے اٹلانٹک کونسل میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا”میں اگر کہوں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے کیس میں ناانصافی ہوئی تو یہ غلط ہو گا کیونکہ یہ سب ’ڈیو پروسیس‘ یعنی قانونی طریقے سے ہوا‘‘موجودہ حکمرانوں کے نزدیک مظلوم صرف وہی ہوتا ہے جو ان کے مفادات کے تابع ہو۔ عافیہ صدیقی جیسے قومی وقار کی علامت کا دفاع کرنا تو درکنار، اُسے ظالم کے حق میں جواز بنا کر عمران خان جیسے مقبول رہنما کی غیر قانونی قید کو درست قرار دینا، دراصل غلامی کی انتہا ہے۔ اگر عافیہ صدیقی کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر بولنا ”ناانصافی“ ہے تو پھر انصاف کس کو کہتے ہیں؟گویا امریکہ کی عدالت کا فیصلہ شریعت سے بڑا، انسانیت سے برتر اور مظلوم کی چیخوں سے مقدس قرار دے دیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ وہ عافیہ صدیقی جسے اغوا کیا گیا، جس پر پانچ سال تک کسی عدالت میں مقدمہ نہیں چلا، جس کے معصوم بچوں کا آج تک کوئی اتا پتا نہیں، جس نے امریکی جیل میں ظلم، جنسی درندگی اور اذیت کا وہ دوزخ سہا جو شاید دوزخ کے باسی بھی نہ سہیں، اسے قانونی طریقہ کار کہنا کیا مظلومیت کی توہین نہیں؟کیا اسحاق ڈار نے اس قوم کو اتنا ہی سادہ لوح سمجھا ہے کہ وہ حقیقت اور فریب میں تمیز نہ کر سکے۔عافیہ صدیقی صرف ایک عورت نہیں، وہ پاکستانی ریاست کی غیرت کا استعارہ ہیں۔ وہ اس بیٹی کی علامت ہیں جسے اس کی ماں نے قرآن پڑھا کر دعائیں دے کر رخصت کیا اور پھر ایک دن اس کی بیٹی کی تصویر گوانتانامو جیسے عقوبت خانے سے نمودار ہوئی اور آج، اُسی قوم کا نائب وزیر اعظم اُسے ’قانونی سزا یافتہ مجرم‘ قرار دے رہا ہے، محض اس لیے کہ اسے عمران خان کی قید کو جائز قرار دینا ہے۔
یہ کیسا مکروہ بیانیہ ہے؟کیا تاریخ میں کسی ظالم نے اپنی ناانصافی کو جواز فراہم کرنے کے لیے ایک اور مظلوم کی مثال دی ہے؟اگر ہٹلر نے یہ کہہ دیا ہوتا کہ فرانز کافکا کی تکلیف بھی درست تھی کیونکہ وہ بھی ریاست کے قانون کے تابع تھا تو کیا دنیا یہ مان لیتی؟اگر یزید نے یہ کہہ دیا ہوتا کہ امام حسینؓ کی قربانی بھی ”قانونی کارروائی“ کے تحت تھی تو کیا کربلا کی تپتی ریت اس بیان کو قبول کر لیتی؟عمران خان کی قید پر دنیا چیخ اٹھی۔ یورپی یونین، اقوام متحدہ، بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں، سب نے اس پر انگلی اٹھائی لیکن پاکستان کے اندر، ایک وزیر ایسا بھی ہے جو دنیا کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ یہاں سب کچھ”قانون کے مطابق“ ہو رہا ہے۔ گویا آئین و قانون وہ پتلی تماشہ ہے جو مقتدر قوتوں کی انگلیوں پر ناچتا ہے اور اس ناچ کو جواز دینے کے لیے اسحاق ڈار جیسے کردار ضروری ہوتے ہیں، جو وقت کے فرعونوں کے گیت گا سکیں۔
یہ محض اتفاق نہیں کہ جس دن وزیر اعظم رہائی کی بات کریں، اُسی دن اُن کا نائب وزیر وہ سب کچھ روند دے۔ یہ دراصل ن لیگ کا اصل چہرہ ہے، ایک ایسا چہرہ جو عوام کے سامنے کچھ اور، واشنگٹن، لندن اور ”پنڈی“ میں کچھ اور ہوتا ہے۔ تاریخ میں ایسے کرداروں کی فہرست طویل ہے۔ میر جعفر بھی تو اپنے وقت کا ”نائب وزیر“ تھا، جس نے سراج الدولہ کے مقابل انگریزوں کے سامنے اپنی زبان اور ایمان گروی رکھا۔ میر صادق نے بھی ٹیپو سلطان کے دربار میں بیٹھ کر انگریزوں کی چاپلوسی کی۔ آج اگر تاریخ نے اسحاق ڈار کو اسی صف میں لا کھڑا کیا ہے تو اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں۔ پوری قوم جانتی ہے کہ عمران خان کو ایک سوچ کے جرم میں قید کیا گیا ہے۔ وہ سوچ جو خودداری، خود مختاری اور انصاف کی تھی۔ وہ آواز جو مدینہ کی ریاست کی بات کرتی تھی اور یہ باتیں وہ طبقہ کیسے برداشت کر سکتا ہے جو ہر آرڈر واشنگٹن سے لیتا ہے، ہر قانون ”پنڈی“ کے اشاروں پر موڑتا ہے اور ہر فیصلہ صرف ذاتی مفاد کی بنیاد پر کرتا ہے؟ عمران خان کی قید، اس قوم کی خودداری کی قید ہے۔
وہ محض ایک شخص نہیں، وہ ایک بیانیہ ہے اور اسی بیانیے کو دفن کرنے کے لیے اسحاق ڈار کو میدان میں اتارا گیا ہے۔ قومیں جب اپنی مظلوم بیٹیوں کی صدائیں سننا چھوڑ دیں، جب وہ اپنے محبوب رہنماوں کی جدوجہد کو جرائم بنا دیں، جب وہ اپنی عدالتوں کو بازاروں کی طرح بکنے دیں تو پھر اُن کا زوال یقینی ہو جاتا ہے۔ کیا ن لیگ کو یہ نہیں معلوم کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا مقدمہ محض ایک فرد کا مقدمہ نہیں؟یہ اُس قوم کی غیرت کا مقدمہ ہے، جو آج بھی اسے اپنی بہن مانتی ہے اور اس کے لیے دعائیں کرتی ہے لیکن اس قوم کا مذاق بناتے ہوئے اسحاق ڈار اسے ایک ’قانونی قیدی‘ قرار دیتا ہے اور عمران خان کو بھی۔ یہ وہی ن لیگ ہے جو کبھی مشرف کی جلا وطنی کے دنوں میں انسانی حقوق کے گیت گاتی تھی لیکن آج وہی جماعت مظلوم کو ظالم اور ظالم کو مسیحا بنا کر پیش کر رہی ہے۔
یہ وہی ن لیگ ہے جس نے ماڈل ٹاون میں بے گناہوں کے سینوں پر گولیاں برسائیں اور پھر رپورٹیں دبا دیں۔ آج یہ جماعت انصاف کے بول بولنے لگی ہے! کاش یہ بھی کوئی طنز ہوتا مگر افسوس یہ سچ ہے۔ ہمیں یاد ہے جب نواز شریف نے کہا تھا ”مجھے کیوں نکالا“ تو پوری جماعت نے اسے سیاسی قیدی کہا۔ آج عمران خان کے لیے ایک لفظ بھی انصاف کا ادا نہیں ہوتا بلکہ اُسے سزا یافتہ ثابت کرنے کے لیے عافیہ صدیقی جیسے عظیم درد کو بیچ میں لایا جاتا ہے۔ یہ صرف منافقت نہیں، یہ قوم کے شعور سے کھلواڑ ہے۔ اس قوم کے صبر کا امتحان مت لو، اسحاق ڈار صاحب!یہ وہی قوم ہے جس نے اپنے لیڈروں کو پھانسیوں سے اٹھایا، جیلوں سے اٹھایا اور میدانوں میں سرخرو کیا۔ عمران خان کی جدوجہد ابھی رکی نہیں۔ عافیہ صدیقی کی بیٹی کی آنکھوں میں اب بھی روشنی ہے اور جب ان دونوں کی داستان ایک دن تاریخ کے اوراق پر لکھی جائے گی تو آپ جیسے کردار صرف ایک حاشیے پر ”بیچنے والے“ کہلا کر دفن ہو جائیں گے۔
یاد رکھیں، جب تاریخ جاگتی ہے تو وہ نہ وزارتوں کو دیکھتی ہے، نہ عہدوں کو۔ وہ صرف حق اور باطل کے بیچ لکیر کھینچتی ہے۔ اس لکیر کے ایک طرف عافیہ صدیقی، عمران خان اور قوم کے سچے خواب ہوں گے اور دوسری طرف اسحاق ڈار جیسے کردار، جنہیں وقت بھی کبھی معاف نہیں کرے گا۔ ۔قوم سے گزارش ہے کہ وہ پہچانے، کون مظلوم ہے اور کون اس کا سودا کر رہا ہے اور پہچانے کہ کون قید ہے جسمانی طور پر مگر آزاد ہے ضمیر اور ایمان کے ساتھ اور کون وزارتوں میں بیٹھ کر غلامی کے طوق گلے میں ڈالے، دوسروں کی قید کو جواز بنانے کے لیے اپنے ہی ملک کی بیٹی کو مجرم قرار دیتا ہے۔ سچ ایک دن ضرور بولے گا اور جب بولے گا تو گرجے گا۔