امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے درجنوں ممالک پر درآمدی اشیاء پر بھاری ٹیرف عائد کیے جانے کے بعد عالمی اسٹاک مارکیٹس میں شدید مندی دیکھی گئی۔
جمعے کے روز نافذ کیے گئے نئے صدارتی احکامات کے تحت 69 ممالک سے آنے والی اشیاء پر 10 سے 41 فیصد تک درآمدی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔
اس فیصلے کے بعد سوئٹزرلینڈ، انڈیا، کینیڈا، برازیل، تائیوان، جنوبی افریقہ اور کئی دیگر ممالک نے امریکا سے نئے مذاکرات کا عندیہ دیا ہے۔
سوئٹزرلینڈ نے 39 فیصد ٹیرف کو چونکا دینے والا قرار دیتے ہوئے مذاکرات کی خواہش ظاہر کی۔ انڈیا نے 25 فیصد ٹیرف کے خلاف تجارتی بات چیت کا آغاز کیا ہے جبکہ تائیوان نے کہا ہے کہ ان پر عائد 20 فیصد ٹیرف عارضی ہے۔

امریکی اسٹاک مارکیٹوں میں ڈاؤ جونز 1.23 فیصد ایس اینڈ پی 500 ایک اعشاریہ 6 فیصد اور نیسڈیک 2.24 فیصد کی کمی کے ساتھ بند ہوئیں۔ یورپی مارکیٹ میں اسٹاکس 600 انڈیکس میں 1.89 فیصد کمی ہوئی۔
ان فیصلوں پر تبصرہ کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس کے اکنامک ایڈوائزر اسٹیفن میرن نے کہا کہ ٹیرف سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال دراصل صدر کو بہتر معاہدے حاصل کرنے کا موقع دیتی ہے۔
کینیڈا پر لگائے گئے 35 فیصد ٹیرف کی وجہ فینٹانائل کی اسمگلنگ سے متعلق عدم تعاون بتائی گئی ہے جبکہ میکسیکو کو 90 دن کی مہلت دی گئی ہے۔
کینیڈین وزیراعظم مارک کارنی نے کہا ہے کہ وہ قومی مفاد کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کریں گے۔ انڈیا کی حکومت کے مطابق یہ ٹیرف ان کے 40 ارب ڈالر کے برآمدی شعبے کو متاثر کر سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: کیا پاکستان واقعی انڈیا کو تیل فروخت کر سکے گا؟ ٹرمپ کا دعویٰ کس حد تک درست ہے؟
امریکی محکمہ تجارت کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ گھریلو اشیاء کی قیمتیں بڑھنے لگی ہیں۔ جرمن شراب ساز جوہانس سیلباخ نے کہا ہے کہ یہ ٹیرف امریکا اور یورپ دونوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔
یورپی کمپنیاں فرسٹ سیل رول جیسے قانونی نکات کو استعمال کر کے نقصان کم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
آسٹریلیا اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک نے نسبتاً کم شرح ٹیرف پر اطمینان کا اظہار کیا ہے تاہم معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ تجارتی جنگوں میں کوئی فریق مکمل فاتح نہیں ہوتا۔
واضع رہے کہ اس اعلان کے مطابق نئے ٹیرف 7 اگست سے لاگو ہوں گے جس کے بعد امریکا کی مؤثر اوسط ٹیرف شرح 2.3 فیصد سے بڑھ کر 18 فیصد تک پہنچ جائے گی۔