حکومتِ سندھ نے اعلان کیا ہے کہ 25 اگست کے بعد کراچی میں بغیر ٹریکر اور کیمروں والے ڈمپروں کو داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
سندھ اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے سینئر صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن نے بتایا کہ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب تین بجے ایک اور افسوسناک حادثہ پیش آیا، جس میں ایک شخص اپنی بیٹی اور بیٹے کو موٹر سائیکل پر لے جا رہا تھا کہ ڈمپر سے تصادم میں دونوں معصوم بچے جاں بحق اور والد زخمی ہوگئے۔ پولیس نے ڈرائیور کو گرفتار کر کے ڈمپر تحویل میں لے لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ واقعے کے بعد چند شرپسند عناصر نے سڑک پر نکل کر سات ڈمپروں کو آگ لگا دی۔ حکومت کسی کے دباؤ یا دھمکی میں نہیں آئے گی اور شرپسندوں کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں گے۔ اس شہر میں دوبارہ لسانیت، بدمعاشی اور بھتہ خوری کی سیاست نہیں ہونے دیں گے۔
یاد رہے کہ رواں برس کراچی میں ڈمپرز کی ٹکر سے ہونے والے متعدد حادثات میں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔

اس موقع پر ایم کیو ایم کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر طحہ احمد صدیقی نے کہا کہ شہر میں ڈمپر بے لگام ہو کر موت بانٹ رہے ہیں، روزانہ ماؤں کی گودیں اجڑ رہی ہیں، لیکن حکومت قاتلوں سے ہی مذاکرات کر رہی ہے۔ ڈمپر جلانے کے مالی نقصان پر تو معاوضہ دیا جا رہا ہے، لیکن جانی نقصان کا کوئی ازالہ نہیں کیا گیا۔
دوسری جانب ایڈیشنل آئی جی کراچی نے غفلت برتنے پر یوسف پلازہ اور فیڈرل بی انڈسٹریل ایریا تھانوں کے ایس ایچ اوز کو معطل کر کے چار رکنی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی۔
مزید پڑھیں: باجوڑ میں دہشت گردوں کے خلاف سیکیورٹی فورسز کا ٹارگٹڈ آپریشن، کئی علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا
دھیان رہے کہ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا، جب کراچی کے علاقے راشد منہاس روڈ پر ڈمپر کی ٹکر سے بھائی اور بہن جاں بحق ہوگئے، جس کے بعد مشتعل ہجوم نے ڈمپر ڈرائیور کو تشدد کا نشانہ بنایا اور سات ڈمپروں کو آگ لگا دی۔
راشد منہاس روڈ پر سات ڈمپروں کو جلانے کے واقعے پر دو مقدمات درج کر کے 160 نامعلوم افراد کو نامزد کیا گیا ہے، جب کہ حادثہ زدہ خاندان کی جانب سے ڈمپر ڈرائیور کے خلاف الگ مقدمہ درج ہے، جس میں ڈرائیور گرفتار ہے۔
ترجمان سندھ حکومت سعدیہ جاوید کے مطابق ڈمپر جلانے کے واقعے میں 14 سے 15 افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں۔