مودی سرکار کے خلاف اپوزیشن نے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے الزام میں احتجاج کیا۔ دہلی میں الیکشن کمیشن کی جانب مارچ کے دوران پولیس نے اپوزیشن رہنما راہول گاندھی، پریانکا گاندھی اور اکھلیش یادیو سمیت متعدد سرکردہ لیڈروں کو حراست میں لیا، تاہم چند گھنٹوں بعد انہیں رہا کر دیا گیا۔ یہ واقعہ نہ صرف بھارتی سیاست میں ہلچل پیدا کر رہا ہے بلکہ یہ سوال بھی اٹھا رہا ہے کہ کیا مودی سرکار کے زوال کا آغاز ہو چکا ہے؟
انڈیا کی سیاست دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی سیاست ہے، جہاں 1.4 ارب سے زائد آبادی مختلف مذہبی، لسانی، اور ثقافتی تنوع کے ساتھ ایک ہی سیاسی فریم ورک میں شریک ہے۔ آزادی کے بعد سے اب تک انڈین سیاست نے کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں، جن میں جمہوری استحکام کے ادوار بھی آئے اور بحران بھی۔ آج کی انڈین سیاست نہ صرف ملکی معاملات بلکہ خطے اور دنیا کے لیے بھی اثر رکھتی ہے۔
آزادی کے بعد اس ملک نے جلد ہی ایک جامع آئین کو اپنایا، آئینِ ہِند 26 جنوری 1950 کو نافذ ہوا اور اس نے پارلیمانی جمہوریت اور وفاقی ڈھانچے کی بنیاد رکھی۔ ابتدائی دہائیوں میں انڈین نیشنل کانگریس نے قومی سیاست پر غالب رہ کر مرکزی پالیسیوں کو وضع کیا۔
1975 میں اندرا گاندھی کے دور میں نافذ کردہ ایمرجنسی نے 21 ماہ کے لیے شہری آزادیوں اور صحافتی آزادی پر پابندیاں عائد کر دیں، اس واقعے نے انڈین عوام اور سیاسی قیادت کو طویل المدتی سیاسی رد عمل پر اکساتا رہا۔ ایمرجنسی کے بعد بننے والی سیاسی صورت حال نے پارٹیاں متحد ہو کر کانگریس کو یکلخت تخت سے ہٹایا اور جمہوری عمل میں نئے نیواندیشیاں آئیں۔
1980 اور خاص طور پر 1990 کی دہائی سے انڈین سیاست میں علاقائی جماعتوں کا عروج ہوا۔ ریاستی سطح پر مقامی لیڈروں اور جماعتوں نے قومی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرنا شروع کیا، جس سے کوآپریشن اور اتحاد کی سیاست عام ہوئی۔ اس دور نے مرکز میں ایک جماعتی بالا دستی کے خاتمے کو فروغ دیا۔
1991 کی لبرلائزیشن نے معیشت اور عوامی توقعات دونوں میں تبدیلیاں لائیں۔ میکرو اکنامک بحران کے بعد نافذ اصلاحات نے مارکیٹ کھولی، غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھی اور نئی معاشی بحثیں سیاسی ایجنڈے کا حصہ بنیں، تاہم سماجی اور اقتصادی تفاوت کے مسائل برقرار رہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) 1980 میں قائم ہوئی اور 1990 کی دہائی میں مذہبی شناخت اور ہندوتوا کے سیاسی بیانیے کے ساتھ مرکزی سیاست میں مضبوط ہوئی۔ 1992 میں بابری مسجد کے انہدام کے واقعے نے مذہبی تقسیم کو سیاست میں مزید تقویت دی۔ بی جے پی کی تشکیل، اس کے نظریاتی پس منظر اور بعد ازاں انتخابی کامیابیاں اس دورِ بدلاؤ کی نمایاں نمونہ ہیں۔

2014 میں نریندر مودی کی قومی سطح پر کامیابی نے انڈین سیاست میں مضبوط مرکزی قیادت اور ترقیاتی نیرِیٹیو کو اجاگر کیا۔ 2014 اور 2019 کے الیکشن میں بی جے پی نے نمایاں نشستیں حاصل کیں اور 2014 کے بعد ڈیجیٹل کیمپیننگ، سوشل میڈیا اور ٹارگٹڈ میسجنگ سیاسی حکمتِ عملی کا اہم حصہ بنی۔ اسی دور میں کچھ مبصرین نے ادارہ جاتی کمزوریوں، میڈیا پر دباؤ اور سماجی بٹی ہوئی صورتحال کے حوالے سے بھی تشویشیں ظاہر کیں۔
ماہر عالمی امور پروفیسر ڈاکٹر نعمان نے پاکستان میٹرز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مودی کا عروج نظریاتی سیاست اور جارحانہ انتخابی مہم کا امتزاج تھا، مگر یہ ماڈل تبھی پائیدار رہ سکتا ہے جب اقتصادی ترقی کے وعدے مسلسل پورے ہوں۔
2024 کے الیکشن میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی امیدیں رنگ نہ لا سکی اور نمایاں سیٹیں نکالنے میں ناکام ثابت ہوئی، جس کے بعد مودی کو اتحادی پارٹیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانا پڑی۔ اپریل تا جون 2024 ہونے والے 18ویں لوک سبھا انتخابات میں این ڈی اے اتحاد نے 293 نشستیں حاصل کیں، جن میں بی جے پی کے پاس 240 نشستیں رہیں،یہ گزشتہ دور کے مقابلے میں کمی تھی۔
مودی تیسری مرتبہ وزیرِاعظم بنے، مگر انتخابی نتائج نے ظاہر کیا کہ عوامی حمایت موجود ہونے کے باوجود اپوزیشن نے نشستوں میں بی جے پی کی برتری کو کم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ یہ ایک ایسا لمحہ تھا جب مرکز میں حکومت بنانے کے لیے اتحادی جماعتوں پر انحصار بڑھ گیا۔
ڈاکٹر نعمان نے کہا کہ یہ نتائج بی جے پی کے لیے وارننگ ہیں کہ اکیلے اکثریت کا زمانہ فی الحال ختم ہو چکا ہے، اور اتحادی سیاست اب اس کے لیے ناگزیر ہو گئی ہے۔

2025 کے اوائل میں مودی سرکار کو شدید سیاسی اور معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان کے ساتھ سرحدی جھڑپوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کشیدگی ایک مختصر مگر خطرناک جنگ میں بدل گئی، جس کے بعد امریکی ثالثی سے جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا۔ یہ صورتحال اپوزیشن کے لیے حکومت پر تنقید کا سنہری موقع بن گئی اور وزیراعظم نریندر مودی کو دفاعی پوزیشن میں لے آئی۔
امریکا نے انڈیا کی متعدد برآمدات پر 50 فیصد تک درآمدی ٹیرف عائد کر دیا، جن میں ٹیکسٹائل، زیورات، سمندری خوراک اور زرعی مصنوعات شامل ہیں، جبکہ فارماسیوٹیکل اور اسمارٹ فونز کو اس فیصلے سے مستثنیٰ رکھا گیا۔ یہ اقدام انڈیا کی معیشت کے لیے براہِ راست دھچکا ثابت ہوا، کیونکہ متاثرہ شعبے انڈیا کی برآمدات کا بڑا حصہ ہیں اور لاکھوں ملازمتیں ان پر منحصر ہیں۔ اس پالیسی کے باعث نہ صرف برآمدی آمدنی میں کمی کا خدشہ پیدا ہوا بلکہ بیرونی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں بھی واضح کمی دیکھنے میں آئی، جس نے مودی حکومت پر دباؤ مزید بڑھا دیا۔
یہ بھی پڑھیں؛فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا دورہ امریکا، انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کو نمایاں تجارتی مراعات
کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے اس صورتحال کو “خارجہ پالیسی کی ناکامی” قرار دیا۔ ان کا مؤقف ہے کہ مودی حکومت امریکی دباؤ کا مؤثر جواب دینے میں ناکام رہی اور تجارتی تعلقات کو سیاسی مصلحت کے تابع کر دیا۔ سابق RBI گورنر راگھورام راجن نے بھی کہا کہ “یہ ایسے ہے جیسے مذاکرات کے دوران آپ کے سر پر بندوق رکھی ہو”—جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انڈیا اس وقت سخت سفارتی پوزیشن میں ہے۔
مزید پرھیں:“امریکی چھوڑو ،مقامی خریدو” انڈیا میں بائیکاٹ مہم عروج پر پہنچ گئی
ڈاکٹر نعمان کا کہنا ہے کہ بحران صرف معیشت کا مسئلہ نہیں بلکہ سیاسی اعتبار سے بھی مودی کے لیے بڑا چیلنج ہے، کیونکہ معیشت اور قومی سلامتی کے دباؤ نے حکومت کو دفاعی حکمتِ عملی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔