پاکستانی روپیہ آئے دن گراوٹ کا شکار رہتا ہے۔ گزشتہ چھ سال سے روپے نے عالمی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش تو ضرور کی ہے، لیکن اس کی حالت روز بروز خراب ہو رہی ہے۔ فی الحال اس میں بہتری کے امکانات نہایت کم نظر آتے ہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ریڈایٹ‘ پر ایک صارف نے سوال کیا ہے کہ کیا پاکستانی روپیہ اپنی قدر واپس حاصل کر پائے گا؟ کیا امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی مسلسل گراوٹ کے علاوہ، ہمارے تیل کے ذخائر کی کوئی ایسی حقیقت پسندانہ امید ہے جو ہمیں بہتر مستقبل کی توقع دے سکے؟
اسی پوسٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ گزشتہ پانچ سے سات سالوں میں روپے کی قدر تیزی سے گری ہے۔ ایک وقت تھا جب ڈالر کی قیمت تقریباً 100 روپے تھی، لیکن اب وہ سطح عبور ہو چکی ہے جس کا ہم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ بیرون ملک سفر کرنے پر ہماری قوتِ خرید تقریباً ختم ہو چکی ہے۔
اس صارف کے مطابق سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ روپے کی قدر میں کمی اب ایک معمول بن چکی ہے۔ ہر بجٹ، ہر سیاسی تبدیلی، اور ہر نئے آئی ایم ایف معاہدے کے بعد روپیہ مزید گرتا ہے۔

ہماری برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو رہا، ترسیلاتِ زر مہنگائی کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتیں، اور قرضوں کی ادائیگیاں ہماری قلیل بچت کو بھی ختم کر دیتی ہیں۔
اس نے اپنی پوسٹ کے اختتام پر پوچھا:کیا آئندہ پانچ سے دس سالوں میں روپے کی قدر میں بہتری آ سکتی ہے، یا ہم مسلسل زوال کا شکار رہیں گے؟ کیا کسی کو اس اندھیرے میں روشنی کی کوئی کرن نظر آتی ہے؟اس نے معاشی ماہرین، کاروباری طبقے اور پاکستان کے مالی حالات سے واقف افراد سے رائے مانگی۔
ایک صارف نے اس سوال کے جواب میں پر امید رائے دی۔ اس کے مطابق، تاریخ گواہ ہے کہ ہمارا خطہ مشکلات سے گزرتا رہا ہے۔ افغانستان کے حملہ آور، درانی سلطنت، انگریز دورِ حکومت سب کچھ دیکھا، مگر ہم آج بھی قائم ہیں۔ اس کا ماننا تھا کہ آزمائش کے بعد بہتری ضرور آتی ہے اور موجودہ حالات بھی عارضی ہیں۔
ایک اور صارف نے لکھا کہ 100 روپے میں ایک ڈالر والی شرح حقیقت میں درست نہیں تھی، یہ حکومت کی زبردستی کی گئی قیمت تھی۔ عمران خان کے دور میں جب ایک ڈالر 170 روپے کا تھا، تو وہ قدر مارکیٹ کے حساب سے زیادہ حقیقت کے قریب تھی۔آج کل ایک ڈالر 280 روپے کے لگ بھگ ہے، اور یہی موجودہ مارکیٹ کی اصل قیمت ہے۔اگر ہمارے پاس زرمبادلہ کے ذخائر زیادہ ہو جائیں، مہنگائی کم ہو جائے، اور ہم زیادہ برآمدات ایکسپورٹس کرنے لگیں، تو روپیہ دوبارہ 170 روپے تک آ سکتا ہے۔ ۔
اس کے مطابق اگر ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھیں، مہنگائی کم ہو، اور برآمدات میں اضافہ ہو، تو روپیہ دوبارہ 170 روپے کی سطح پر آ سکتا ہے لیکن یہ سب 20 سال کا سفر ہے، وہ بھی تب جب ہمارے حکمران واقعی سنجیدہ ہوں۔البتہ، اس نے یہ بھی واضح کیا کہ روپیہ کبھی دوبارہ 100 روپے فی ڈالر کی سطح پر نہیں جائے گا، اور موجودہ اصل مسئلہ روپے کی قدر نہیں بلکہ کم اجرتیں اور کاروباری منافع ہیں، جو مہنگائی کے مقابلے میں بڑھ نہیں پا رہے۔

ایک اور تفصیلی کمنٹ میں ایک صارف نے کہا کہ ہمیں حکومت سے توقعات وابستہ کرنے کے بجائے خود کچھ کرنا ہوگا۔ جیسے پاکستانیوں نے بغیر کسی سرکاری پالیسی کے سولر پینل درآمد کیے اور آج وہ 25 فیصد بجلی مہیا کر رہے ہیں، ویسے ہی عوامی اقدامات ہی تبدیلی لاتے ہیں۔
اس کے مطابق دنیا بھر میں پاکستانی کامیاب ڈاکٹرز، انجینئرز، اور تاجر ہیں۔ مسئلہ صرف وژن اور قیادت کا ہے۔ اگر ہم کارخانے لگائیں، مصنوعات تیار کریں، معیار قائم کریں اور خود پر اعتماد رکھیں تو کوئی ہمیں ترقی سے نہیں روک سکتا۔
اس صارف نے مشورہ دیتے ہوئے لکھا کہ کارخانے لگائیں، پروڈکٹس بنائیں، ایک چھوٹے آئیڈیا سے شروع کریں۔ لوگ مذاق اڑائیں گے؟ تو اڑانے دیں ، وہ گھر بیٹھے ہیں، آپ میدان میں ہیں۔ چینی مصنوعات کبھی سستی نقلی سمجھی جاتی تھیں، آج وہی عالمی مارکیٹ کے لیڈر ہیں۔ ان کا سادہ سا راز ہے،منافع کماؤ اور دوبارہ ٹیکنالوجی میں لگاؤ۔ انکر (Anker) جیسی کمپنیاں اب ایپل اور سامسنگ کو بھی پیچھے چھوڑ رہی ہیں۔
مزید پڑھیں:پاکستان میں گاڑیوں کی فروخت میں سالانہ 28 فیصد اضافہ
اس نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں جیسے ہی کسی کو منافع ہوتا ہے، وہ نئی سوسائٹی بنانے کی دوڑ میں لگ جاتا ہے ۔اسپورٹس سٹی، اسمارٹ سٹی، وغیرہ ، مگر پلاٹ بیچنے والا ماڈل کبھی بھی روپے کو مستحکم نہیں کرے گا۔
اس کے مطابق، ہمیں برآمدات کے قابل مصنوعات تیار کرنی چاہییں، چاہے وہ مہنگی ہوں مگر معیاری ہوں۔ معیار، ٹیکنالوجی اور طویل مدتی سرمایہ کاری ہی وہ عوامل ہیں جو روپے کی قدر میں اضافہ لا سکتے ہیں۔
کیا ریاست اور حکومتی ادارے اب بھی محض وقتی فیصلوں اور بیرونی قرضوں پر انحصار کرتے رہیں گے، یا اب وہ سنجیدگی سے برآمدات، صنعت، اور مقامی ٹیلنٹ پر سرمایہ کاری کر کے پائیدار معیشت کی طرف قدم بڑھائیں گے،یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہر پاکستانی جاننا چاہتا ہے۔
مگر یہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اگرچہ مختصر مدت میں بہتری کے آثار دھندلے ہیں، لیکن طویل مدتی اصلاحات، پائیدار ترقیاتی منصوبے، اور سب سے بڑھ کر عوامی سطح پر شعور اور عمل سے ہم نہ صرف روپے کو مضبوط بنا سکتے ہیں بلکہ قومی خودداری کو بھی بحال کر سکتے ہیں۔