ٹشو پیپر کا استعمال ہمیشہ سے ہی عارضی رہا ہے، جسے جب چاہیں استعمال کریں اور پھینک دیں۔ ایسے ہی 79 سال سے ہم عوام سے ہورہا ہے۔ سیاستدان ہوں یا بیورکریٹس، جج ہوں یا آمریت پرست حکمران سبھی ایسا کرتے آرہے ہیں، مگر المیہ یہ ہے کہ پاکستانی قوم خود اس ٹشو پیپر کا کردار حاصل کرنے پر راضی ہے۔ کبھی عدالتوں پر حملہ کرنے میں کردار ادا کیا تو کبھی فوجی تنصیبات پر گھیرا ڈال کر سیاستدانوں، منصوبہ سازوں کے آلہ کار بنے۔
پیپلز پارٹی ہو، ن لیگ یا پھر پی ٹی آئی ، ہر دور میں استعمال یہی قوم ہوتی رہی ہے۔ کبھی لانگ مارچ کرنے کے لیے ڈی چوک پہنچ گئی، کبھی مہنگائی کے دور میں احتجاج کرائے گئے۔ استعمال وہی قوم ہوتی رہی، جبکہ احتجاج کرانے والی پارٹی اپنی حکمرانی میں آتے ہی وہ تمام مسائل بھول جاتی ہے، جن کی بنیاد پر احتجاج اور دھرنے دیے جاتے۔
1947 سے لے کر اب تک پاکستان کی باگ ڈور جس پارٹی کے ہاتھ میں بھی پکڑائی گئی، اس نے اپنے حصے کا اس قوم کو استعمال کیا اور پھر بے یارو مددگار کچرے میں پھینک دیا۔ پھر باقی کا حصہ بانٹنے کے لیے اگلی پارٹی کو باری دے دی گئی۔
پاکستان کی قسمت دیکھیں آزادی حاصل کرنے کے باوجود 23 سال بعد عام انتخابات نصیب ہوئے۔ 1970 میں پاکستان میں عام انتخابات میں پہلی باری پیپلز پارٹی کو دی گئی، جس نے “روٹی، کپڑا اور مکان” کا نعرہ لگایا اور عام آدمی کے جذبات کے ساتھ کھیلنا شروع کیا۔
ذوالفقارعلی بھٹو کی موت کے بعد اسی نعرے کو لے کر بینظیر بھٹو نے تسلسل جاری رکھا اور اس نعرے کے ساتھ ساتھ بھٹو کی پھانسی کی ہمدردی کو بنیاد بنا کر مزید عوام کے جذبات کے ساتھ کھیلا۔
اسی ہمدردی کے ساتھ 1988 میں بینظیر نہ صرف پاکستان بلکہ اسلامی ممالک کی پہلی وزیر اعظم بنیں۔ اس کے بعد بینظیر بھٹو اسی “روٹی، کپڑا اور مکان” کے نعرے کے ساتھ دوبارہ پاکستان کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔
2007 میں جب بینظیر بھٹو کا قتل ہوا تو آصف علی زرداری کی سربراہی میں پیپلز پارٹی نے 2008 کے الیکشن میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی ہمدردی کا ووٹ حاصل کیا اور اس الیکشن میں مزید ہمدردی سمیٹنے کے لیے “بی بی کا مشن — روٹی، کپڑا اور مکان” کا نعرہ لگایا گیا۔ اسی ہمدردی کے ساتھ چوتھی دفعہ پیپلز پارٹی کو ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے باری دے دی گئی۔
“روٹی، کپڑا اور مکان” کا نعرہ لگانے والی پیپلز پارٹی چار دفعہ اس آنکھ مچولی کی باری لے چکی ہے اور گزشتہ 17 سالوں سے سندھ پر حکمرانی کر رہی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ روٹی، کپڑا اور مکان کی حامی پیپلز پارٹی نے عوام کو یہ ضروریات مہیا کیں یا پھر اگلی باری کا انتظار کرنے کے لیے عوام کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا؟ اس کا اندازہ سندھ میں نظم و نسق سے لگایا جا سکتا ہے۔
پیپلز پارٹی کے ساتھ ن لیگ نے بھی برابر کی باری لی۔ پہلے پہل نواز شریف نے پنجاب کی حکمرانی کا سہرا اپنے سر سجایا اور پھر تین دفعہ خود وزیر اعظم بنے۔ نواز شریف جب پہلی بار 1988 میں ملک کے سربراہ کے لیے الیکشن میں اترے تو انہیں عام کارکنوں اور حمایتی حلقوں کی طرف سے “نواز شریف مردِ اول” کا لقب دیا گیا۔
اسی مردِ اول نے پنجاب پر حکمرانی کے علاوہ تین ادوار میں پاکستانی قوم کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا۔ پھر کچرے میں پھینک کر ایک نئے جذبے اور نئے سلوگن کے ساتھ الیکشن کے میدان میں اتر آئے۔ کبھی “احتساب” یا “انصاف” کا نعرہ لگایا، کبھی “ووٹ کو عزت دو” کا۔
ان ہی نعروں کے ساتھ عوام کے جذبات سے کھیلنے والے نواز شریف تین ادوار وزیر اعظم رہنے کے بعد 2024 کے الیکشن میں ایک بار پھر خود کو پاکستان کا مستقبل سمجھتے ہوئے اپنی پارٹی کا سلوگن “پاکستان کو نواز دو” لے کر میدان میں اترے۔ مگر اس بار نہ عوام نے ساتھ دیا اور نہ ہی خلائی مخلوق کی طرف سے کوئی بلاوہ آیا۔
یہ بھی پڑھیں:میں پاکستان ہوں
پی ٹی آئی نے بھی اسی تسلسل کو برقرار رکھا۔ “نیا پاکستان” کا نعرہ لگانے والی پی ٹی آئی 126 دنوں کے دھرنے کے ساتھ عوام کے جذبات سے کھیلنے لگی۔ کبھی “نیا پاکستان” کا نعرہ لگا، کبھی “تبدیلی” کے نام پر امید دلائی۔ 2013 سے لے کر 2018 تک کئی دنوں کے دھرنے اور احتجاج کرنے والی یہ پارٹی اپنی حکمرانی میں آتے ہی وہ تمام مسائل بھول گئی جن پر عوام کو جذباتی کیا گیا تھا۔ پانچ سال میں جس طرح پاکستانی عوام، خاص طور پر نوجوانوں کی امیدوں سے کھیلا گیا، اسی طرح اقتدار میں آ کر اپنے وعدے بھلا دیے گئے۔
مزید پڑھیں:باپ کا بیٹے کو ایوارڈ، بلاول کو دیا گیا ’نشان پاکستان‘ سوشل میڈیا پر موضوع بحث بن گیا
پاکستانی عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ ہر دور میں اپنے جذبات، امیدوں اور خوابوں کو خود اپنے ہاتھوں سے حکمرانوں کے حوالے کر دیتی ہے۔ ہر بار نئے نعرے، نئے وعدے اور نئی امیدیں بیچی جاتی ہیں اور ہر بار عوام وہی پرانا انجام بھگتتی ہے ،استعمال کرو اور پھینک دو۔ یہ سلسلہ تب تک نہیں رکے گا جب تک یہ قوم خود کو ٹشو پیپر سمجھنے کے بجائے ایک باشعور اور جواب طلب عوام بننے کا فیصلہ نہیں کرتی۔ ورنہ اگلی باری بھی کسی اور کے ہاتھ میں ہو گی اور انجام وہی پرانا ہوگا۔
نوٹ: بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ ایڈیٹر