امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن آج جمعہ کو امریکی ریاست الاسکا میں ملاقات کر رہے ہیں، تاہم یوکرین میں جنگ بندی کے معاہدے پر پیش رفت کے امکانات غیر یقینی ہیں۔
اس دوران پیوٹن نے ایک آخری لمحے کی پیش کش کے طور پر ممکنہ جوہری معاہدے کا اشارہ دیا ہے، جو دونوں رہنماؤں کے لیے سیاسی طور پر فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ ملاقات سرد جنگ کے دور کے ایک ایئر فورس بیس پر ہو رہی ہے، جو ٹرمپ کے دوبارہ وائٹ ہاؤس آنے کے بعد دونوں رہنماؤں کی پہلی آمنے سامنے بات چیت ہوگی۔
اس موقع پر یوکرین اور یورپی ممالک میں یہ خدشات پائے جا رہے ہیں کہ ٹرمپ کہیں کیف کو قربان نہ کر دیں۔
ٹرمپ نے جمعرات کو اعتراف کیا کہ ساڑھے تین سال پرانی اس جنگ کو ختم کرنا ان کے خیال سے زیادہ مشکل ثابت ہوا ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ اگر پیوٹن کے ساتھ ان کی بات چیت کامیاب رہی تو یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی کے ساتھ بعد میں ایک سہ فریقی سربراہی اجلاس طے کرنا، پیوٹن سے ملاقات سے بھی زیادہ اہم ہوگا۔

زیلنسکی کو جمعہ کی ملاقات میں مدعو نہیں کیا گیا۔ ٹرمپ جنگ بندی چاہتے ہیں تاکہ خود کو عالمی امن قائم کرنے والا رہنما ثابت کر سکیں اور اس حوالے سے نوبل امن انعام کے مضبوط امیدوار کے طور پر پیش ہوں، جو ان کی ذاتی خواہش بھی ہے۔
یوکرین اور یورپی اتحادیوں کا کہنا ہے کہ بدھ کو ٹرمپ کے ساتھ ایک کانفرنس کال میں انہوں نے یقین دلایا کہ یوکرین کو کسی بھی زمینی رعایت سے متعلق بات چیت میں شامل کیا جائے گا۔
زیلنسکی کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے جنگ کے بعد کے معاہدے میں سکیورٹی گارنٹیز کی بھی حمایت کی، حالانکہ ٹرمپ نے عوامی طور پر اس کا ذکر نہیں کیا۔
اس یقین دہانی سے ان خدشات میں کمی آئی کہ ٹرمپ اور پیوٹن کسی ایسے معاہدے پر متفق ہو سکتے ہیں جس سے یوکرین پر زمینی یا دیگر رعایتیں دینے کا دباؤ بڑھ جائے۔
پیوٹن، جن کی جنگی معیشت دباؤ کا شکار ہے، چاہتے ہیں کہ ٹرمپ روس کو مغربی پابندیوں کے سخت دائرے سے نکالنے میں مدد کریں یا کم از کم مزید پابندیوں سے گریز کریں، جن کی دھمکی ٹرمپ دے چکے ہیں۔
ملاقات سے ایک دن پہلے، پیوٹن نے اس امکان کا بھی اشارہ دیا جو ٹرمپ کے لیے پرکشش ہے، ایک نیا جوہری ہتھیاروں کا کنٹرول معاہدہ، جو اگلے سال فروری میں موجودہ معاہدے کی مدت ختم ہونے سے پہلے کیا جا سکے۔

ٹرمپ نے ملاقات سے ایک دن قبل کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ پیوٹن یوکرین پر کوئی معاہدہ کر سکتے ہیں، لیکن انہوں نے پیش رفت کے امکانات پر ملے جلے اشارے دیے۔
دوسری جانب پیوٹن نے امریکی کوششوں کو “مخلصانہ” قرار دیتے ہوئے جنگ ختم کرنے کی خواہش کی تعریف کی۔
روئٹرز کو ایک کریملن سے قریبی ذریعے نے بتایا کہ ایسا لگتا ہے دونوں فریق پہلے ہی کسی حد تک غیر علانیہ اتفاق رائے پر پہنچ چکے ہیں۔
بظاہر کل (جمعہ کو) کچھ شرائط طے پا جائیں گی کیونکہ ٹرمپ کو انکار نہیں کیا جا سکتا، اور ہم موجودہ پابندیوں کے دباؤ کی وجہ سے انکار کی پوزیشن میں نہیں ہیں،” اس ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا۔
پیوٹن نے مکمل جنگ بندی کے لیے سخت شرائط رکھی ہیں، تاہم ایک ممکنہ سمجھوتہ فضائی حملوں میں مرحلہ وار کمی ہو سکتی ہے، اگرچہ دونوں فریق ماضی کے معاہدے کی خلاف ورزی کے ایک دوسرے پر الزامات لگا چکے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پیوٹن بظاہر ٹرمپ کو وہ دینے کی کوشش کر سکتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں، جبکہ یوکرین میں مزید کارروائی کا اختیار اپنے پاس رکھیں گے۔
زیلنسکی نے پیوٹن پر الزام لگایا ہے کہ وہ وقت حاصل کرنے کے لیے بلف کر رہے ہیں تاکہ امریکی ثانوی پابندیوں سے بچ سکیں۔ انہوں نے کسی بھی علاقے کو روس کے حوالے کرنے کا امکان مسترد کر دیا ہے۔
ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ روس اور یوکرین کے درمیان زمینی تبادلے تعطل توڑنے کا ایک ممکنہ راستہ ہو سکتے ہیں۔ اس وقت روسی افواج یوکرین کے تقریباً پانچویں حصے پر قابض ہیں۔
پیوٹن چاہتے ہیں کہ ٹرمپ روس اور امریکا کے محدود معاشی، سیاسی اور تجارتی تعلقات کو دوبارہ بحال کریں، اور ترجیحاً اس عمل کو یوکرین پر پیش رفت سے مشروط نہ کریں۔
تاہم یہ واضح نہیں کہ پیوٹن یوکرین پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔ ایک چوتھائی صدی سے اقتدار میں موجود کریملن سربراہ اپنی سیاسی وراثت اس جنگ سے ایسی کامیابی کے ساتھ جوڑ چکے ہیں، جسے وہ اپنی عوام کو “فتح” کے طور پر پیش کر سکیں۔
ان کے بڑے مقاصد میں ڈونباس کے صنعتی خطے، یعنی دونیتسک اور لوہانسک پر مکمل قبضہ شامل ہے، حالانکہ اب تک دونیتسک کا تقریباً 25 فیصد علاقہ روسی کنٹرول سے باہر ہے۔
پیوٹن کھیرسن اور زاپوریزیا کے مکمل کنٹرول، یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کے امکان کا خاتمہ، اور یوکرین کی مسلح افواج کے سائز پر پابندیاں بھی چاہتے ہیں۔
یوکرین نے ان شرائط کو ناقابل قبول قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ دراصل اسے ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہیں۔