امریکا نے غزہ سے آنے والے افراد کے لیے تمام وزیٹر ویزے فوری طور پر معطل کر نے کا اعلان کردیا ہے۔
امریکی وزارتِ خارجہ کی جانب سے سماجی رابطے کی سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ سے آنے والے افراد کے لیے تمام وزیٹر ویزے روکے جا رہے ہیں، ہم حالیہ دنوں میں تھوڑی تعداد میں عارضی طبی-انسانی ہمدردی کے ویزے جاری کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے عمل اور طریقہ کار کا مکمل اور مکمل جائزہ لے رہے ہیں۔
عالمی خبررساں ادارے بی بی سی اردو کے مطابق اس فیصلے پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور فلسطینی بچوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والے گروپوں نے شدید ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔
فلسطین چلڈرنز ریلیف فنڈ نے فیصلے کو ’تباہ کن‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم غزہ کے ان زخمی اور بیمار بچوں کو زندگی بچانے والا علاج فراہم نہیں کر سکیں گے، جن کی آخری امید امریکا تھا۔
All visitor visas for individuals from Gaza are being stopped while we conduct a full and thorough review of the process and procedures used to issue a small number of temporary medical-humanitarian visas in recent days.
— Department of State (@StateDept) August 16, 2025
امریکی حکومت کے اس فیصلے کے پیچھے ایک اور داستان بھی سامنے آئی ہے۔ دائیں بازو کی کارکن لورا لومر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر اس ویزا پروگرام کے خلاف مسلسل مہم چلائی، جس کے بعد محکمہ خارجہ نے پالیسی میں تبدیلی کی۔ لومر نے اس معطلی کا کریڈٹ خود کو دیا اور سینیٹر مارکو روبیو کا بھی شکریہ ادا کیا۔
فلسطینی چلڈرنز ریلیف فنڈ کے مطابق صرف 2024 میں اب تک 169 بچے غزہ سے نکال کر مختلف ممالک میں علاج کے لیے بھیجے گئے، جن میں امریکا بھی شامل ہے۔
مزید پڑھیں: روس کی جانب سے جنگ بندی سے انکار جنگ کے خاتمے کی کوششوں کو پیچیدہ بنا رہا ہے، زیلنسکی
یاد رہے کہ سات اکتوبر 2023 کے بعد شروع ہونے والی اسرائیل-غزہ جنگ نے پورے علاقے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ غزہ کا بیشتر طبی نظام زمین بوس ہو چکا ہے اور لاکھوں افراد شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔
عالمی انسانی حقوق تنظیموں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی ناکہ بندی کے باعث خوراک اور ادویات کی فراہمی شدید متاثر ہو رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ اور دیگر ادارے بارہا خبردار کر چکے ہیں کہ غزہ میں فاقہ کشی اور قحط جیسی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔

عالمی خبر رساں اداروں اے ایف پی، ایسوسی ایٹڈ پریس، رائٹرز اور بی بی سی نے ایک مشترکہ بیان میں انکشاف کیا کہ غزہ میں کام کرنے والے صحافی بھی شدید بھوک کا شکار ہو چکے ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ یہی صحافی مہینوں سے دنیا کے لیے غزہ کی آنکھ اور کان بنے ہوئے تھے، مگر اب وہ خود بھی انہی حالات کی گرفت میں ہیں، جنہیں وہ دنیا کو دکھا رہے تھے۔
مزید یہ کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی جولائی میں تسلیم کیا تھا کہ غزہ میں ’حقیقی فاقہ کشی‘ ہے، تاہم ان کی انتظامیہ اب بھی اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی بھرپور حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔