افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کے بعد رہ جانے والے جدید ہتھیار پاکستان کے لیے سنگین تشویش کا باعث بن گئے ہیں۔افغانستانی دہشت گرد تنظیمیں ان ہتھیاروں کو پاکستان میں حملے کے لیے استعمال کررہی ہیں۔
ترجمان دفترِ خارجہ شفقت علی خان نے امریکا کے افغانستان میں چھوڑے گئے جدید ہتھیاروں کے واپسی کے فیصلے پر ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکی افواج نے اگست 2021 میں افغانستان سے انخلا کے بعد جدید ہتھیار چھوڑے تھے۔ یہ امریکی جدید ہتھیاروں کی ا فغانستان میں موجودگی پاکستانی شہریوں کے لیےتشویش کا باعث ہے۔
خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھانے سے قبل افغانستان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر افغانستان نے امریکی طیارے، موجود جنگی سازوسامان، گاڑیاں اور مواصلاتی آلات واپس نہ کیے، تو وہ افغانستان کو دی جانے والی تمام مالی امداد بند کر دیں گے۔ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ سالانہ اربوں ڈالرطالبان حکومت کو ادا کرنے جا رہے ہیں، لیکن جب تک طالبان حکومت فوجی سازوسامان امریکا کو واپس نہیں کرتی انہیں رقم نہیں دی جائے گی۔

ترجمان دفترِ خارجہ نے واضح کیا ہے کہ ٹی ٹی پی سمیت دیگر دہشت گرد تنظیمیں ان ہتھیاروں کو پاکستان میں حملے کے لیے استعمال کررہی ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان مسلسل کابل حکام سے مطالبہ کرتا آیا ہے کہ وہ ان ہتھیاروں کو غلط ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لیے فوری اقدامات کرے، لیکن افغان حکومت کی جانب سے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔
ترجمان نے پاکستان کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی سطح پر مزید تعاون کی اہمیت پر بھی زور دیا اور کہا کہ افغانستان میں موجود ہتھیاروں کا مسئلہ ایک سنجیدہ نوعیت کا ہے جس کا حل فوری طور پر تلاش کیا جانا چاہیے تاکہ دہشت گردی کی کارروائیوں کو روکا جا سکے۔
یاد رہے کہ ماضی میں کئی بار ان ہتھیاروں کی وجہ سےپاکستان کو حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، پاکستان نے اس کے خلاف عالمی سطح پر کئی بار آواز اٹھائی ہے۔ 2023 میں پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑنے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اگر افغانستان میں چھوڑے گئے امریکی ہتھیار تحریک طالبان پاکستان سمیت دیگر عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگ گئے تو یہ صورتحال پاکستان کے لیے انتہائی خطرناک ہوگی۔

نگران وزیرِاعظم نے کہا تھا کہ یہ ایمونیشن کہ جس میں نائٹ ویژن چشموں سے لے کر تھرمل سلامینڈر تک وسیع پیمانے پر فوجی ہتھیار شامل ہیں، اسلام آباد کے لیے ایک نیا چیلنج بن گیا ہے،کیونکہ ان ہتھیاروں تک رسائی نے پاکستانی طالبان کی جنگی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے۔
اس سے قبل نگران وزیرِخارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے دیگر ممالک کو بھی افغانستان میں طالبان کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طالبان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ حقائق کا حصہ ہیں۔