Follw Us on:

عمران خان سے معافی کا مطالبہ یا تاریخ سے مذاق

خالد شہزاد فاروقی
خالد شہزاد فاروقی
Whatsapp image 2025 08 18 at 1.39.01 pm
عمران خان کو یہ کہہ کر جھکانے کی کوشش ہو رہی ہے کہ معافی مانگو۔ (فوٹو: پاکستان میٹرز)

سہیل وڑائچ نے اپنے حالیہ کالم میں، جس انداز سے جنرل عاصم منیر کی شخصیت کو پیش کیا ہے،اس میں ایک صحافی کا قلم کم اور ایک “درباری مؤرخ” کا انداز زیادہ جھلکتا ہے۔ ان کے الفاظ سے لگتا ہے کہ جیسے کسی فیلڈ مارشل کے قصیدے تحریر ہو رہے ہوں اور عوام کے اصل مسائل،قانون کی بالادستی اور آئینی اصول پس منظر میں دھکیل دیے گئے ہوں مگر اصل سوال یہ ہے کہ جب ایک صحافی قلم اٹھائے تو کیا اس کا فرض طاقتور کو خوش کرنا ہے یا کمزور اور مظلوم کی آواز بننا؟

عمران خان گزشتہ دو برس سے جیل میں ہیں، بغیر ثبوت کے مقدمے، عدالتوں کی مرضی کے فیصلے اور آئین کے ساتھ کھلواڑ روز کا معمول ہے مگر سہیل وڑائچ جیسے کہنہ مشق صحافی اس پر آواز اٹھانے کی بجائے قیدِ تنہائی کے کرب سے گزرنے والے شخص سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ’معافی‘ مانگے۔

سوال یہ ہے کہ آخر کس بات کی معافی؟ کیا آئین کی بالادستی کی بات کرنے پر معافی؟ کیا غیر ملکی سازشوں کو بے نقاب کرنے پر معافی؟ کیا عوام کے حقِ حکمرانی کا نعرہ بلند کرنے پر معافی؟ کیا تاریخ کے ہر آمر کی طرح اس بار بھی قصور وار وہی ہے، جو عوامی حمایت کے ساتھ کھڑا ہے اور جو کہتا ہے کہ اختیار کا سرچشمہ عوام ہیں؟

یہ وہی رویہ ہے، جو ہم نے ایوب خان کے زمانے میں بھی دیکھا تھا، جب حاشیہ بردار صحافی ’ڈھاکہ کی گرین گراؤنڈ‘ پر بھٹو کو اقتدار میں شریک کرنے کے بجائے ایوبی نظام کے فضائل بیان کرتے رہے۔ ضیاء الحق کے دور میں بھی درباری دانشوروں کی کمی نہ تھی، جو اس آمر کو ’مجاہد اسلام‘ اور ’ولی کامل‘ بنا کر پیش کرتے رہے حالانکہ وہ منتخب وزیر اعظم کو تختہ دار پر لٹکانے والا سفاک حکمران تھا۔

پرویز مشرف کے دنوں میں بھی یہی کمال ہوا کہ اس نے آئین توڑا، ججز کو یرغمال بنایا، صحافت پر پابندیاں لگائیں مگر کچھ صحافی اسی دور کو ’روشن خیال اعتدال‘ کا زمانہ قرار دیتے رہے۔ آج ایک بار پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے، مگر فرق صرف اتنا ہے کہ اس بار عمران خان کو یہ کہہ کر جھکانے کی کوشش ہو رہی ہے کہ معافی مانگو اور مصالحت کر لو مگر معافی کس سے؟آئین سے؟عوام سے یا تاریخ سے؟

سہیل وڑائچ نے جس طرح برسلز میں جنرل عاصم منیر کی تقاریر اور ملاقاتوں کو تفصیل سے بیان کیا ہے،اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک پیغام رساں کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر واقعی جنرل صاحب اتنے ہی عوام دوست،عجز و انکسار کے پیکر اور جمہوریت کے حامی ہیں تو پھر پاکستان کے سب سے بڑے عوامی رہنما کو دو برس سے جیل میں کیوں رکھا گیا ہے؟

کیا یہ جمہوریت ہے کہ ایک شخص جو ملک کے کروڑوں عوام کا لیڈر ہے،اس کو صرف اس وجہ سے پسِ زندان رکھا جائے کہ وہ طاقت کے ایوانوں کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا ہے؟ یہ بات درست ہے کہ پاکستان کے ہر آمر نے اپنے آپ کو ’محافظ‘ اور ’مجاہد‘ کہا۔ ایوب خان نے بھی خود کو قوم کا نجات دہندہ بتایا،ضیاء الحق نے اسلام کے نام پر اپنی آمریت کو دوام دیا،پرویز مشرف نے پاکستان کو ترقی اور روشن خیالی کے دعوؤں کے ساتھ لوٹا۔

ہر دور میں یہی دعویٰ کیا گیا کہ ہمارے پاس ایک معاشی روڈ میپ ہے،ہمارے منصوبے پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنا دیں گے، ہمارے اقدامات پاکستان کو خوشحال بنا دیں گے مگر نتیجہ کیا نکلا؟ آج پاکستان قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے، ادارے تباہ حال ہیں، آئین کمزور اور عوام دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔

یہ سب کس کی وجہ سے ہے؟انہی فیلڈ مارشلوں کی وجہ سے جنہیں سہیل وڑائچ جیسے لوگ ہیرو بنا کر پیش کرتے ہیں۔ جنرل عاصم منیر نے برسلز میں فرمایا کہ انہیں کسی عہدے کی خواہش نہیں،وہ صرف ایک سپاہی ہیں اور شہادت ان کی سب سے بڑی خواہش ہے۔

یہ الفاظ اپنی جگہ مگر سوال یہ ہے کہ اگر واقعی ان کا مقصد شہادت اور ملک کی حفاظت ہے تو پھر سیاست میں دخل اندازی کیوں؟پھر وہ کیوں ہر سیاسی عمل کے پیچھے دکھائی دیتے ہیں؟پھر وہ کیوں ہر حکومت کے قیام اور خاتمے میں کردار ادا کرتے ہیں؟اگر مقصد محض ملک کی حفاظت ہے تو پھر آئین کے مطابق اپنی حد میں رہتے ہوئے کردار ادا کریں مگر افسوس کہ ہمارے ہاں ہر جرنیل کا سب سے بڑا شوق سیاست اور اقتدار ہی ہوتا ہے۔

یہ کہنا کہ سیاسی مصالحت معافی مانگنے سے ممکن ہے،دراصل ایک اور دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے۔ معافی اس وقت مانگی جاتی ہے، جب کوئی جرم کیا ہو۔ کیا عمران خان نے جرم کیا؟ کیا عوامی مینڈیٹ لینا جرم ہے؟ کیا کرپشن کے خلاف آواز بلند کرنا جرم ہے؟ کیا ملک کے وسائل کی لوٹ مار پر سوال اٹھانا جرم ہے؟ اگر یہ جرم ہیں تو پھر پاکستان کا ہر نوجوان مجرم ہے کیونکہ وہ بھی یہی باتیں کرتا ہے۔

اصل حقیقت یہ ہے کہ معافی کا مطالبہ دراصل ایک طریقہ ہے، عمران خان کو جھکانے کا، ان کے حوصلے کو توڑنے کا اور عوام کو یہ باور کرانے کا کہ طاقت ہمیشہ اسی کے پاس ہے، جو وردی پہنتا ہے۔ سہیل وڑائچ جیسے صحافی جب ایسے کالم لکھتے ہیں تو دراصل وہ آئین اور قانون کی روح کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں کیونکہ ان کا قلم طاقتور کے حق میں دلیلیں تراشتا اور کمزور کی چیخوں کو نظر انداز کرتا ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب عدالتیں بے توقیر ہو چکی ہیں، جب انصاف بک رہا ہے، جب میڈیا سنسرشپ کا شکار ہے، ایسے میں صحافیوں کی اصل ذمہ داری یہ تھی کہ وہ عوامی نمائندوں کے ساتھ کھڑے ہوتے مگر افسوس کہ سہیل وڑائچ نے بھی وہی راستہ اختیار کیا، جو ماضی میں درباری مؤرخین نے اختیار کیا تھا۔

عمران خان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کرنا دراصل یہ کہنا ہے کہ عوام سے بھی معافی مانگو کہ تم نے ان کے حقِ حکمرانی کی بات کی۔ یہ کہنا ہے کہ آئین سے معافی مانگو کہ تم نے اس کی پاسداری پر زور دیا۔ یہ کہنا ہے کہ تاریخ سے معافی مانگو کہ تم نے اسے بدلنے کی کوشش کی۔

تاریخ گواہ ہے کہ جو لوگ آئین کے ساتھ کھڑے ہوئے، عوام کے ساتھ کھڑے ہوئے، ان کو وقتی طور پر سزائیں ضرور ملیں، قید و بند کے مصائب سہنے پڑے مگر وہ امر ہو گئے اور جو لوگ آمروں کے قصیدے لکھتے رہے، وہ وقت گزرنے کے ساتھ محض فٹ نوٹ میں درج ہو کر رہ گئے۔

پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں ہر بار آئین توڑنے والے کو ’محافظ‘ کہا گیا اور عوام کے حق میں کھڑا ہونے والے کو ’مجرم‘ بنا دیا گیا۔ آج بھی وہی کھیل جاری ہے۔ سہیل وڑائچ جیسے لوگ، جب اپنے کالموں میں اس کھیل کو جواز فراہم کرتے ہیں تو دراصل وہ آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ طاقت کے آگے جھک جانا ہی دانش ہے مگر سچ یہ ہے کہ اصل دانش طاقت کے آگے ڈٹ جانے کا نام ہے۔

عمران خان قید میں ہیں مگر ان کی فکر آزاد ہے۔وہ پسِ زندان ہیں مگر ان کے چاہنے والے ہر جگہ موجود ہیں۔ وہ دیواروں کے پیچھے ہیں مگر ان کی آواز ہر دل میں گونج رہی ہے اور یہی چیز طاقتوروں کو خوفزدہ کرتی ہے۔ اسی لیے سہیل وڑائچ جیسے لوگ معافی کی باتیں کرتے ہیں تاکہ یہ آواز دب جائے۔

 مگر تاریخ گواہ ہے کہ یہ آواز دبنے والی نہیں، جس طرح ایوب کے خلاف عوام اٹھ کھڑے ہوئے،جس طرح ضیاء کے اندھیروں کے باوجود جمہوریت کی شمع بجھی نہیں، جس طرح مشرف کے ایمرجنسی کے باوجود وکلا تحریک کامیاب ہوئی، اسی طرح آج بھی عمران خان کے ساتھ کھڑے لوگ ہار ماننے والے نہیں۔

لہٰذا اصل معافی تو طاقتوروں کو مانگنی چاہئے،عوام سے،آئین سے اور تاریخ سے مگر یہ معافی کبھی مانگی نہیں جاتی اور جو لوگ ان کے قصیدے لکھتے ہیں،ان کو بھی سوچنا چاہیے کہ تاریخ انہیں کس نظر سے دیکھے گی۔ سہیل وڑائچ نے اپنے کالم میں بہت سے قصے کہانیاں بیان کیں مگر ایک بات بھول گئے کہ تاریخ کی عدالت سب سے بڑی عدالت ہے اور وہاں کوئی رعایت نہیں ملتی۔

سینئر صحافی، کالم نگار اور بلاگر ہیں، پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔

خالد شہزاد فاروقی

خالد شہزاد فاروقی

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس