Follw Us on:

کراچی مر رہا ہے… اور تمہیں شرم نہیں آتی

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Web 01 (10)

کراچی, وہ شہر جو پاکستان کی سانسوں کی ڈوری ہے۔ جس کی بندرگاہ پر دنیا کے جہاز لنگر انداز ہوتے ہیں، جس کی فیکٹریوں سے انجن کی طرح ملک کی مشینری چلتی ہے، جہاں کے مزدور دن رات اپنا خون پسینہ بہاتے ہیں تاکہ اسلام آباد کی روشنیاں کبھی مدھم نہ ہوں۔ مگر یہی شہر ہر بار بارش کے بعد ڈوب جاتا ہے، جلتا ہے، لاشیں اگلتا ہے اور پھر حکمرانوں کی بے حسی پر ماتم کرتا ہے۔

19اگست کی بارش نے ایک بار پھر کراچی کو اجاڑ دیا۔ محکمہ موسمیات کے مطابق ایئرپورٹ پر 163 ملی میٹر، نارتھ ایسٹ میں 178 ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوئی۔ لیکن کراچی کے لئے یہ اعدادوشمار نہیں، یہ جنازے ہیں۔ صرف ایک دن میں آٹھ ہلاکتیں، سینکڑوں گھر پانی میں، ہزاروں لوگ سڑکوں پر۔ کل بارش ہوئی، آج بھی ہوئی اور کل پھر ہوگی۔ ہر بوند کراچی کے باسیوں کے لئے موت کا پیغام ہے۔

یہ پہلا دن نہیں، یہ ستر سال کا نوحہ ہے۔ 1970 میں بارش نے پہلا بڑا وار کیا۔ کورنگی اور ناظم آباد میں لوگ ہفتوں پانی میں پھنسے رہے۔ وہ دن اخباروں میں محض خبر بن کر رہ گیا مگر متاثرین آج بھی اس کو یاد کرتے ہیں۔1980 کی دہائی میں لیاری اور لانڈھی کے نالے بپھرے۔ درجنوں مکانات زمین بوس ہوئے، بچے پانی میں بہہ گئے۔ مگر اس وقت کے حکمرانوں نے کہا: ’’یہ قدرتی آفت ہے۔‘‘ گویا عوام کے خون کی کوئی قیمت نہیں۔1992 کی بارش نے شہر کو ہفتوں کے لئے مفلوج کر دیا۔ پانی اتنا بڑھ گیا کہ لوگ کشتیوں پر اپنے گھروں سے نکلتے تھے۔ اسی دوران ایک مزدور فیروزآباد سے اپنی بیمار ماں کو ہسپتال لے جانے کی کوشش میں رکشہ پر نکلا، مگر رکشہ پانی میں بہہ گیا۔ ماں اور بیٹے دونوں کی لاشیں ایک ہفتے بعد ملی۔ یہ کہانی آج بھی مقامی لوگ آنکھوں میں آنسو لیے دہراتے ہیں۔

Karachi flood..
2007 کراچی کی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ ایک دن میں 172 ملی میٹر بارش ہوئی اور 228 لوگ مر گئے۔ (فوٹو: ڈان )

2007 کراچی کی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ ایک دن میں 172 ملی میٹر بارش ہوئی اور 228 لوگ مر گئے۔ جن میں بچے بھی تھے، بزرگ بھی، مزدور بھی اور خواتین بھی۔ پورے شہر میں اندھیرا چھا گیا۔ کے۔الیکٹرک نے ہاتھ کھڑے کر دئیے، لاشیں بجلی کے کرنٹ سے جھلستی رہیں۔ مگر اگلے دن وزیر اعلیٰ نے کہا: ’’صورتحال پر قابو پا لیا ہے۔‘‘ یہ قابو آج بھی عوام کے گلے میں پھندا بن کر لٹک رہا ہے۔

2009 میں کرنٹ لگنے سے دو سو لوگ مارے گئے۔ وہ سال کراچی والوں نے یوں یاد رکھا کہ ’’یہ سال بجلی نے ہم سے سب کچھ چھین لیا۔‘‘

2010 میں بارشوں نے ایک بار پھر قیامت ڈھا دی۔ 300 سے زائد لوگ ہلاک ہوئے، ہزاروں بے گھر۔ ایک کہانی جو اْس وقت میڈیا پر دبی دبی زبان میں چلی، وہ ناظم آباد کی ایک لڑکی کی تھی جو یونیورسٹی سے واپس آ رہی تھی۔ بس پھنس گئی، وہ پیدل چل پڑی۔ راستے میں کرنٹ زدہ پانی نے اس کی جان لے لی۔ اگلے دن اس کا باپ جنازے کے ساتھ کھڑا رو رہا تھا اور کہہ رہا تھا: ’’میری بیٹی پڑھنے نکلی تھی، لاش بن کر واپس آئی۔‘‘

2020 میں 41 افراد بارش اور بجلی کی نااہلی کا شکار ہوئے۔ شہر میں ہفتوں پانی کھڑا رہا۔ گاڑیاں ڈوب گئیں، گھروں میں راشن سڑ گیا۔ اسی دوران ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک شخص اپنے گھر کے فرنیچر پر بیٹھا بارش کے پانی میں تیر رہا تھا۔ یہ منظر صرف مذاق نہیں، پورے شہر کی حقیقت تھی۔2022 میں 30 لوگ مرے۔ ان میں سے زیادہ تر بچے اور خواتین تھیں جو اپنے گھروں میں ہی کرنٹ لگنے سے جھلس گئے۔اور 2025 کی بارش؟ پھر وہی تاریخ دہرا دی گئی۔ وہی نالے ابلے، وہی بجلی گئی، وہی لاشیں اٹھیں، وہی وزیروں کی پریس کانفرنسیں آئیں اور وہی عوام کے آنسو بہے۔

Karachi flood 1
2020 میں 41 افراد بارش اور بجلی کی نااہلی کا شکار ہوئے۔ شہر میں ہفتوں پانی کھڑا رہا۔ (فوٹو: ڈان نیوز)

یہ سب محض تاریخ نہیں۔ یہ خون کے دھبے ہیں جو آج بھی گلیوں کی دیواروں پر ہیں۔ یہ آنسو ہیں جو آج بھی ملیر، لیاری، لانڈھی اور ناظم آباد کی گلیوں میں بہہ رہے ہیں۔کراچی سوال کرتا ہے: ’’کیا میری لاشیں قدرتی آفات ہیں؟ کیا میرا خون بجٹ میں شامل نہیں؟ کیا میری چیخیں وفاق کے کانوں تک نہیں پہنچتیں؟‘‘پیپلز پارٹی کا طرزِ حکومت کراچی کے لئے موت کا پروانہ بن چکا ہے۔ ان کے وزراء فوٹو سیشن کرتے ہیں، میڈیا پر بیانات دیتے ہیں، مگر نالے صاف نہیں کرتے، سیوریج کا نظام نہیں ٹھیک کرتے۔ کراچی والوں کو صرف لاشیں ملتی ہیں۔

وفاق کا رویہ اور بھی بھیانک ہے۔ اسلام آباد کو وفاقی یونٹ بنایا گیا تاکہ وہ محفوظ رہے۔ مگر کراچی، جو پورے ملک کو پالتا ہے، اس کے لئے وفاق کہتا ہے: ’’یہ صوبے کا مسئلہ ہے۔‘‘ جب بجلی کا بل دینا ہو تو یہ وفاقی مسئلہ ہوتا ہے، جب ریونیو کھانا ہو تو یہ وفاقی مسئلہ ہوتا ہے، مگر جب لاشیں اٹھتی ہیں تو یہ صوبائی مسئلہ؟ یہ دوہرا معیار ہے، یہ ظلم ہے۔

جماعت اسلامی کے میئرز نے ہمیشہ کم وسائل میں بھی عوام کے لئے کچھ کیا۔ حافظ نعیم الرحمن کو دھاندلی سے ہرا دیا گیا، مگر عوام کے دلوں میں وہ آج بھی جیتے ہیں۔ وہ بارش کے پانی میں عوام کے ساتھ نکلے، نالوں کے کنارے کھڑے ہو کر صفائی کرائی، اور دکھایا کہ نیت ہو تو سب کچھ ممکن ہے۔ ان کی سیاست آج کراچی والوں کے لئے امید ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی اور وفاق کی بے حسی نے اس امید کو بھی کچلنے کی کوشش کی ہے۔

کراچی کے عوام فوج کو پکار رہے ہیں۔ ان کا پیغام ہے: ’’ہمیں یتیم مت کرو۔ ہمیں صرف بلڈوزر نہیں چاہئے، ہمیں نظام چاہئے۔ ہمیں ایسے گورنر نہیں چاہئے جو صرف پروٹوکول میں زندہ ہیں۔ ہمیں تمہاری مدد چاہئے۔ اگر شہر ڈوبا تو ملک بھی ڈوبے گا۔‘‘ عوام کہہ رہی ہے: ’’ہمیں صرف بارش کا پانی نہیں چاہئے کہ صاف ہو، ہمیں سانس لینے کے لئے ایک نظام چاہئے۔‘‘

Karachi flood
کراچی ابھی کل کی بارش کے زخموں سے سنبھل بھی نہیں پایا تھا کہ رات ایک اور زوردار بارش نے دروازہ کھٹکھٹا دیا ہے۔ (فوٹو: الجزیرہ)

کراچی پاکستان کو ساٹھ فیصد ریونیو دیتا ہے۔ نوے فیصد سے زیادہ بیرونی تجارت کراچی کے راستے سے ہوتی ہے۔ یہ شہر ملک کو پالتا ہے۔ مگر خود لاشوں میں اٹا ہے۔ یہ انصاف نہیں، یہ کھلا ڈاکہ ہے۔ اسلام آباد کے محل روشن ہوں اور کراچی کی گلیاں اندھیروں میں ڈوبی ہوں؟

کراچی کے عوام طنز کرتے ہیں: ’’ہمارے بچوں کی لاشیں نالوں میں بہہ جائیں، مگر تمہاری کاروں کے شیشے گیند کی طرح چمکیں۔ ہم بجلی کے کرنٹ سے جل جائیں، مگر تمہارے محل کی روشنی بند نہ ہو۔ ہم قبرستانوں میں جائیں، اور تم شادی ہالوں میں رقص کرو۔‘‘کراچی کہہ رہا ہے: ’’میں پاکستان کو زندہ رکھتا ہوں، مگر تم نے مجھے مرنے کے لئے چھوڑ دیا۔‘‘
آخر میں ایک ہی سوال رہ جاتا ہے:

کراچی مر رہا ہے… اور تمہیں پھر بھی شرم نہیں آتی؟

کراچی ابھی کل کی بارش کے زخموں سے سنبھل بھی نہیں پایا تھا کہ رات ایک اور زوردار بارش نے دروازہ کھٹکھٹا دیا ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق ایئرپورٹ کے قریب گزشتہ 24 گھنٹوں میں 163 ملی میٹر سے زائد بارش ریکارڈ ہوئی تھی اور اب اگلے 12 سے 24 گھنٹوں میں مزید 100 ملی میٹر تک بارش کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ یہ وہ مقدار ہے جسے کراچی کا ناکام ڈرینیج سسٹم برداشت کرنے کے قابل نہیں۔

Karachi rain

کل کی بارش نے کم از کم 11 افراد کی زندگیاں نگل لیں، کرنٹ لگنے، دیواریں گرنے اور ڈوبنے سے۔  بارش اس نقصان کو اور بڑھا سکتی ہے۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو شہر میں نہ صرف مزید ہلاکتوں کا اندیشہ ہے بلکہ وبائی امراض، حادثات اور بنیادی سہولیات کی مکمل ناکامی بھی سامنے آ سکتی ہے۔

یہ وقت کراچی کے باسیوں کے لیے ایک اور کڑا امتحان ہے۔ اس موقع پر صرف حکومت یا اداروں کو کوسنے سے بات نہیں بنے گی، بلکہ شہریوں کو خود بھی اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیے محتاط رہنا ہوگا۔کھلے تاروں اور کھمبوں سے دور رہیں،بچوں کو بارش کے پانی میں ہرگز نہ جانے دیں،غیر ضروری سفر اور گاڑی چلانے سے اجتناب کریں،نچلے علاقوں میں گاڑیاں پارک نہ کریں،کسی بھی ہنگامی صورتحال میں فوری طور پر ریسکیو اداروں یا مقامی رضاکار ٹیموں سے رابطہ کریں۔

کراچی کا درد یہ ہے کہ یہاں کا نظام ہر بار بارش کے ساتھ بیٹھ جاتا ہے، لیکن شہری پھر بھی زندہ رہنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ یہ شہر اب صرف خیرات یا ہنگامی امداد کا نہیں بلکہ مستقل اور سنجیدہ گورنس کا متقاضی ہے۔ جب تک سیاسی جماعتیں اپنی انا کو قربان کر کے مل بیٹھ کر کراچی کو بچانے کی کوشش نہیں کریں گی، یہ شہر یونہی ہر سال پانی میں ڈوبتا اور لاشیں گنتا رہے گا۔

دعا ہے کہ یہ بارش مزید جنازے نہ لائے، اور اللہ اس شہر کو اپنی امان میں رکھے۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس