ڈائریکٹر جنرل محکمہ موسمیات صاحبزادہ خان نے کہا ہے کہ پاکستان کا اپنا گرین ہاؤس گیسز اخراج دنیا کے مقابلے میں نہایت کم ہے، لیکن اس کے باوجود ملک کلائمیٹ چینج کے شدید اثرات بھگت رہا ہے اور ورنریبل ممالک کی فہرست میں پہلے پانچ نمبروں میں شامل ہو چکا ہے۔
پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو میں ڈی جی میٹ کا کہنا تھا کہ چین کا عالمی اخراج میں حصہ 16 فیصد اور بھارت کا 8 فیصد ہے، جن کے اثرات خطے پر براہِ راست پڑتے ہیں۔ “پاکستان کا کردار بہت معمولی ہے مگر ہم دوسروں کے کیے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اس وقت بارشوں میں شدت، گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے اور لینڈ سلائیڈنگ و فلیش فلڈز کی صورت میں ہمیں سخت خطرات لاحق ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ 2015 میں پیرس پروٹوکول کے تحت دنیا نے یہ عہد کیا تھا کہ عالمی درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز نہیں کرنے دیا جائے گا، مگر عملی طور پر اس پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ “سال 2024 میں یہ حد عبور کر چکی ہے، جنوری اور جولائی تاریخ کے گرم ترین مہینوں میں شامل رہے، جبکہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں درجہ حرارت 1.68 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھا ہے جس سے گلیشیئر پگھلنے کی رفتار بھی تیز ہو گئی ہے۔”
صاحبزادہ خان کے مطابق، یکم سے 11 اگست تک گلگت بلتستان اور شمالی علاقہ جات میں اوسط درجہ حرارت 7 سے 9 ڈگری ریکارڈ کیا گیا، جو ماضی کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔ اس کے نتیجے میں جھیلیں پھٹنے، فلیش فلڈز اور آبادیوں کے متاثر ہونے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کلاؤڈ برسٹ جیسے واقعات کم مگر تباہ کن ہوتے ہیں، جو مخصوص علاقوں میں شدید بارش کے باعث بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ محکمہ موسمیات اپنی فورکاسٹ میں اس حوالے سے وارننگ جاری کرتا ہے، تاہم ایسے قدرتی مظاہر کی سو فیصد پیشگوئی ممکن نہیں۔
ماحولیات پر بات کرتے ہوئے ڈی جی میٹ نے کہا: “ہم نے درخت کاٹ کر اور جنگلات کم کر کے اپنے ماحول کو مزید خطرناک بنا دیا ہے۔ اگر ایک درخت کاٹیں تو کم از کم 10 درخت لگانا ہوں گے تاکہ توازن بحال ہو سکے۔ ماحول کو گرین کلائمیٹ میں بدلنے کے لیے وقت درکار ہے، یہ ایک دن یا ایک مہینے کا کام نہیں ہے۔”
انہوں نے خبردار کیا کہ فضائی آلودگی اور سموگ کا مسئلہ بھی اب مستقل عذاب بنتا جا رہا ہے، جو اکتوبر سے دسمبر تک جاری رہتا ہے اور اس سے نہ صرف انسانی صحت بلکہ کمیونیکیشن سسٹم بھی شدید متاثر ہوتا ہے۔
ڈی جی میٹ نے کہا کہ حکومت کلائمیٹ چینج اور ماحولیاتی آلودگی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے، تاہم عوامی شمولیت اور آگاہی کے بغیر کوئی پالیسی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ “پالیسی بنانا حکومت کا کام ہے لیکن عمل درآمد عوام نے کرنا ہے، اس کے لیے شعور اور تعاون نہایت ضروری ہے۔”